1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لیبیا: لمحہ لمحہ بکھرتی ریاست

Rolf Breuch / امجد علی29 اگست 2014

ابتری اور پُر تشدد واقعات کی لپیٹ میں آئے ہوئے لیبیا میں اس سے زیادہ سنگین بات کوئی نہیں ہو سکتی تھی کہ عبوری حکومت نے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا ہے اور اب دو پارلیمانی اداروں کے درمیان اقتدار کی کشمکش شروع ہو گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/1D3av
لیبیا کے مستعفی ہونے والے وزیر اعظم عبداللہ الثانی
لیبیا کے مستعفی ہونے والے وزیر اعظم عبداللہ الثانیتصویر: AFP/Getty Images

لیبیا کی حکومت کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ وزیر اعظم عبداللہ الثانی اور اُن کے وُزراء نے ’منتخب پارلیمان‘ میں اپنے استعفے پیش کر دیے ہیں۔ اس بیان کے مطابق اب پارلیمان کو ’ملک کے واحد جائز با اختیار ادارے کے طور پر‘ ایک نئی حکومت نامزد کرنی چاہیے، ’جو لیبیا کی پوری قوم کی نمائندگی کرتی ہو‘۔

دیکھا جائے تو اس عبوری حکومت کو لیبیا میں ویسے بھی کوئی حقیقی طاقت حاصل نہیں تھی۔ اس حکومت کا ہیڈ کوارٹر ملک کے مشرقی حصے میں واقع ہے کیونکہ یہ ادارہ طرابلس میں اسلام پسند ملیشیا گروہوں کے دائرہ اثر سے بچنا چاہتا تھا۔ خود پارلیمان کا ہیڈکوارٹر بھی دارالحکومت طرابلس سے سولہ سو کلومیٹر مشرق کی جانب شہر طبروق میں ہے۔ یہ پارلیمان اس سال جون میں منعقدہ انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی اور تب اس نے فوری طور پر لیبیا کی قومی کانگریس کے اختیارات سنبھال لیے تھے۔

لیبیا میں مختلف مقامات پر متحارب گروہ ایک دوسرے سے برسرِ پیکار ہیں
لیبیا میں مختلف مقامات پر متحارب گروہ ایک دوسرے سے برسرِ پیکار ہیںتصویر: Reuters

سلامتی کونسل کی جانب سے پابندیوں کی دھمکی

جون میں منعقدہ انتخابات میں شکست سے دوچار ہونے و الے اسلام پسند عناصر منتخب پارلیمان اور عبوری حکومت کی قانونی حیثیت کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔ ابھی چند روز پہلے اسلام پسندوں نے ایک بار پھر اُس قومی کانگریس کا اجلاس بلا لیا، جس کے ساتھ وہ ہمدردیاں رکھتے ہیں اور تب اُنہوں نے ایک طرح کی متوازی پارلیمان تشکیل دے دی۔ اس قومی کانگریس نے پیر 25 اگست کو عبوری حکومت کے سربراہ کے طور پر وزیر اعظم الثانی کو اُن کے عہدے سے گویا سبکدوش کرنے کا اعلان کر دیا اور اپنی طرف سے ایک وزیر اعظم نامزد کر دیا۔ اس طرح اس تنازعے نے اس شمالی افریقی ملک کے اُس سیاسی بحران کو اور زیادہ سنگین بنا دیا ہے، جس کی لپیٹ میں یہ ملک گزشتہ کئی مہینوں سے ہے۔

لیبیا میں اقتدار کی اس کشمکش پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے پابندیوں کی دھمکیاں دی ہیں۔ نیویارک میں سلامتی کونسل نے اعلان کیا کہ لیبیا میں امن و سلامتی کو خطرے سے دوچار کرنے والے افراد یا گروپوں کے خلاف تعزیری اقدامات کیے جائیں گے، مثلاً اُن کے اکاؤنٹ منجمد کر دیے جائیں گے۔ لیبیا میں اقوام متحدہ کے سفیر ابراہیم دباشی نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اُن کے ملک میں حالات ایک ایسے مرحلے پر پہنچ چکے ہیں، جہاں ’ایک بڑی خانہ جنگی‘ بھی شروع ہو سکتی ہے۔

2011ء میں لیبیا پر طویل عرصے تک حکومت کرنے والے معمر القذافی کے اقتدار کے خاتمے کے بعد سے اس ملک میں اپنی نوعیت کے شدید ترین پُر تشدد واقعات دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ ملک میں مختلف مقامات پر متحارب گروہ ایک دوسرے سے برسرِ پیکار ہیں اور حکومت کو ابتر صورتِ حال کو کنٹرول کرنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔