1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’لکڑی‘ جوڑوں کی سُوجن کے لیے مفید

عابد حسین4 مارچ 2014

انسانی بدن میں کسی ٹوٹی ہڈی کو جوڑنے کے لیے کی جانے والی سرجری یا جراحتی عمل میں لچکدار لکڑی کا استعمال کیا جاتا ہے، ایک تحقیقی کے مطابق پٹی میں لپٹی یہ لکڑی جوڑوں کی سُوجن کے لیے مفید ہو سکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/1BIvI
تصویر: picture-alliance/Okapia

ایک تازہ ریسرچ سے معلوم ہوا ہے کہ عمر رسیدگی کے دوران جوڑوں کا ورم یا سوجن کا علاج ایسی لکڑی کے ٹکڑوں میں موجود ہے جو ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کی سرجری کے دوران استعمال میں لائی جاتی ہے۔ ٹانگ یا بازو کی ٹوٹی ہڈی کو سیدھا رکھنے کے لیے بعض اوقات معالجین لچکدار لکڑی کو استعمال کرتے ہیں۔ جراحتی عمل میں استعمال ہونے والی اِس لکڑی کو انگریزی میں اسپلنٹ (Splint) یا اُردو میں کھپچی کہا جاتا ہے۔ بھارت اور پاکستان میں مستعمل قدیمی طریقہٴ جراحت کے دوران بھی جراح ایسی کھپچیاں استعمال کیا کرتے تھے، جو عموماً بید، آم یا بانس کی لکڑی سے بنی ہوتی تھیں۔

برطانیہ کی معتبر آکسفورڈ یونیورسٹی کے جوڑوں کے وَرم یا آرتھرائٹس (Arthritis) کے مرض پر تحقیق کرنے والے قومی مرکز(Arthritis Research UK Centre for Osteoarthritis Pathogenesis) میں جوڑوں کے مرض (Osteoarthritis) کی ماہر ڈاکٹر فی اونا واٹ کا کہنا ہے کہ رات کو سونے سے قبل جوڑوں کے درد والے مقام پر اسپلنٹ یا کھپچی باندھ دی جائے تو درد کی شدت میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر واٹ کے مطابق یہ ایک انتہائی سستا علاج ہے اور اس کے مثبت اثرات ظاہر ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر واٹ نے مریضوں کے لیے لچکدار اسپلنٹس کا استعمال نہیں کیا بلکہ وہ کھپچیاں استعمال کی گئیں جو خاصی سخت لکڑی کی تھیں۔

Großbritannien Energiepreise
جوڑوں کی سوجن کے مریضوں کو سرد موسم میں تکلیف بڑھ جاتی ہےتصویر: DW/L. Bevanger

ڈاکٹر فی اونا واٹ اور اُن کی ٹیم نے آرتھرائٹس کے مریضوں پر رات کے دوران روایتی کھپچیوں کو درد کے مقام پر رکھ کر پٹی سے باندھ دیا۔ یہ آزمائشی عمل یونیورسٹی کے لندن کلینک میں مکمل کیا گیا۔ اسپلنٹس کے استعمال کے لیے خاص طور ایسے مریضوں کا انتخاب کیا گیا تھا، جن کو جوڑوں کی سُوجن سے شدید درد کا سامنا ہونے کے علاوہ بڑھاپے میں درد اور ورم سے جوڑوں میں تبدیلی پیدا ہونے کا بھی مرض لاحق تھا۔ ان کی عمریں 55 سے 70 برس کے درمیان تھیں۔ ڈاکٹر واٹ نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ اس عمل سے مریضوں کو افاقہ ہونے کے علاوہ تبدیل ہوتے جوڑوں کے عمل میں رکاوٹ بھی پیدا ہوئی۔

اِس سے پہلے بھی اسپلنٹس کے استعمال سے متعلق تحقیقی رپورٹس سامنے آئی ہیں لیکن اُن میں اِن کے کُلی طور پر مفید ہونے کا اظہار نہیں کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر واٹ کے ٹیسٹ کے نتائج 74 فیصد تک مثبت ظاہر ہوئے ہیں۔ آزمائشی مرحلے میں مریضوں کو تین ماہ تک مسلسل اسپلنٹس باندھی گئی اور جب مقررہ عرصے کے بعد ان کو اسپلنٹس سے آزاد کر دیا گیا تو اُن کے درد میں واضح فرق پیدا ہو چکا تھا۔ وہ جوڑ جن پر اسپلنٹس نہیں باندھی گئی تھیں وہاں درد کی شدت برقرار رہی۔

ڈاکٹر واٹ کے مطابق تین ماہ کے آزمائشی مرحلے کے بعد بھی اِن مریضوں کو اگلے تین ماہ تک درد میں خاصا افاقہ رہا۔ تجرباتی مرحلے کے بعد 61 فیصد مریضوں نے اسپلنٹس یا کھپچیوں کے استعمال کو ترجیح دی۔ ڈاکٹر فی اونا واٹ کی ریسرچ جوڑوں کے درد سے متعلق طبی جریدے جرنل ریومیٹالوجی میں شائع ہوئی ہے۔