1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لوگ بچوں کو قتل کرنے پر کیسے آمادہ ہو جاتے ہیں ؟

ڈینس شٹوٹے / امتیاز احمد19 دسمبر 2014

پاکستان میں بچوں کا قتل عام کیسے ممکن ہوا ؟ جرمنی میں اعصابی نفسیات کے ماہر تھوماس ایلبرٹ بتاتے ہیں کہ انسان اس قدر ظالمانہ اقدامات کیوں کرتا ہے ؟ اور وہ کسی حد تک اس میں لذت بھی کیوں محسوس کرتا ہے ؟

https://p.dw.com/p/1E7gf
Taliban Angreifer Schule in Peschawar
تصویر: Reuters/Pakistan Taliban

ڈی ڈبلیو: پاکستانی طالبان نے تقریباﹰ 135 بچوں کا قتل عام کیا ۔ کیا یہ قاتل شدید ذہنی انتشار کے شکار لوگ تھے ؟

تھوماس ایلبرٹ: ایسا نہیں ہے کہ یہ لوگ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم تھے۔ ان کے ذہن انتہائی فعال ہوتے ہیں اور ایک منظم انداز میں جرائم کا ارتکاب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ بات بظاہر ہمیں غیر منطقی لگتی ہے کہ کس طرح کوئی سوجھ بوجھ رکھنے والا انسان عام شہریوں، یہاں تک کہ بچوں کے ساتھ اتنا ظالمانہ سلوک کر سکتا ہے اور انہیں ذبح کر سکتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ قاتل اپنے ٹارگٹ کو انسان ہی نہیں سمجھتا، وہ اسے ایک ناپاک کیڑے کی طرح سمجھ رہا ہوتا ہے۔

دوسری جانب حقیقت یہ ہے کہ قاتل کے سامنے ایک جیتا جاگتا انسان ہوتا ہے، جو محسوس بھی کر رہا ہوتا ہے اور رو بھی رہا ہوتا ہے۔۔۔۔۔ یہ بہت مشکل ہوتا ہے کہ ایک انسان دوسرے روتے ہوئے شخص کو ایک گھناؤنے کردار کے طور پر دیکھے۔ ایسا دیکھنے کے لیے انس‍ان کے اندر بہت زیادہ نفرت بھری ہونی چاہیے۔ جب انسان کسی خطرے کے سامنے خود کو بے بس محسوس کرتا ہے یا حالت جنگ میں اسے یہ پتہ نہ چلے کہ اب کیا کرنا ہے تو اس کے اندر نفرت پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ ایسی صورت حال میں ترغیب دلانے والا صرف ایک ہی شخص کافی ہوتا ہے جو نفرت سے بھرے انسان کو کسی بھی راستے پر ڈال سکتا ہے۔ وہ حملہ آور کو بتاتا ہے کہ اُس کا ہدف بننے والے قصور وار ہیں ۔ ایسی صورتحال میں مقتول کا رونا بھی قاتل کو اطمینان فراہم کرتا ہے۔

ڈی ڈبلیو: آپ ایسے لوگوں کے انٹرویوز کرتے ہیں، جو جنگ زدہ علاقوں میں سفاکانہ تشدد کا ارتکاب کر چکے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کےمقاصد کیا ہوتے ہیں ؟

تھوماس ایلبرٹ: جب بھی ریاستی اجارہ داری ٹوٹتی یا کمزور ہوتی ہے تو اس سے بے راہ روی کے شکار نوجوان لڑکوں کے گروہ جنم لیتے ہیں۔ عورتیں شاذ و نادر ہی ایسے گروپوں کا حصہ بنتی ہیں۔ ایسے نوجوانوں کے گروہ کنٹرول سے باہر ہو جاتے ہیں اور ایک دوسرے سے بڑھ کر کارروائیاں کرنے کو اپنی شان اور اعزاز سمجھتے ہیں۔ میں نے جب بھی دیہات پر چھاپہ مار کارروائیاں یا قتل عام کرنے والوں سے پوچھا کہ وہ یہ سب کرتے ہوئے کیسا محسوس کرتے ہیں تو سب کا کہنا تھا کہ صرف آغاز مشکل تھا۔ بعد میں آپ اسے ایک جنگی حربہ اور انصاف پر مبنی قتل عام سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ اچانک ایسے لوگ قتل و غارت گری کی ضرورت محسوس کرنے لگتے ہیں اور انہیں ان دہشت گردانہ کارروائیوں میں لطف آنے لگتا ہے۔ دوسروں کا قتل کرنا نشے کی لعنت میں گرفتار ہونے کے برابر ہو جاتا ہے۔ کئی جنگجوؤں نے مجھے بتایا کہ وہ دوسروں کو قتل کرنے کے لیے کبھی کبھار شام کو خود ہی اکیلے کیمپ سے باہر چلے جاتے تھے۔ اس کا مقصد کسی ہمسائے کی بکری چوری کرنا نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی دشمن سے لڑائی۔ ان کا دل صرف اور صرف تشدد اور ظلم کرنا چاہتا تھا۔

ڈی ڈبلیو: کیا ایسا ہر معاشرے اور ثقافت میں ہو سکتا ہے ؟

تھوماس ایلبرٹ: ظاہر ہے ایسا ہر ثقافت میں ہو سکتا ہے۔ ہم نے اس رجحان کے بارے میں پانچ براعظموں میں سے چار میں تحقیق کی ہے۔ حیران کن طور پر ہمیں سبھی جگہ صورتحال ایک جیسی ملی۔ ہر معاشرے اور ثقافت میں انسان دوسرے انسانوں کو قتل کرنے ، اس کا شکار کرنے اور اس کی بے توقیری کی جبلت رکھتا ہے۔

ڈی ڈبلیو: کیا ہر انسان غیر مناسب حالات میں ایسے اندوہ ناک مظالم کر سکتا ہے ؟

تھوماس ایلبرٹ: ہاں بدقسمتی سے ایسا ہی ہے۔ میرے خیال میں جنگ زدہ حالات کے دوران زیادہ تر افراد کو قتل و غارت پر آمادہ کیا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب نوجوانی کی عمر ہوتی ہے۔

تھوماس ایلبرٹ کونسٹانس یونیورسٹی میں کلینیکل سائیکالوجی اور اعصابی نفسیات کے پروفیسر ہیں۔ وہ ، انسان کس طرح قتل و غارت اور تشدد پر تیار ہو جاتا ہے ؟ ایسے موضوعات پر تحقیق کر رہے ہیں۔