1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لاونیا شنکرن کا ناول، ’امید کی فیکٹری‘

امجد علی17 ستمبر 2014

’دی ہوپ فیکٹری‘ بھارتی ادیبہ لاونیا شنکرن کا پہلا ناول ہے، جس میں جنوبی بھارت کے شہر بنگلور کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے اس ملک کی بدلتی ہوئی اَقدار کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ اب یہ انگریزی ناول جرمن میں بھی شائع ہو گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1DDp1
بھارتی ادیبہ لاونیا شنکرن آج کل اپنے شوہر اور ایک نو عمر بیٹی کے ساتھ اپنے آبائی شہر بنگلور میں رہائش پذیر ہیں
بھارتی ادیبہ لاونیا شنکرن آج کل اپنے شوہر اور ایک نو عمر بیٹی کے ساتھ اپنے آبائی شہر بنگلور میں رہائش پذیر ہیںتصویر: picture-alliance/Effigie/Leemage

جرمن زبان میں اس ناول کو ’دی فاربن ڈیئر ہوفنُنگ‘ یعنی ’امید کے رنگ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ آنند اور کملا اس ناول کے دو مرکزی کردار ہیں۔ دونوں ہی ایک روشن مستقبل کے خواب دیکھتے ہیں۔ یہ دونوں کردار چوراسی لاکھ کی آبادی والے شہر بنگلور میں رہتے ہیں۔ اپنی سخت محنت اور لگن سے وہ اس شہر کی بھاگتی دوڑتی بے ترتیب اور پُر شور زندگی میں کسی نہ کسی مقام تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن پھر اگلے ہی لمحے حسد اور فراڈ کرنے والوں کی کارستانیاں اُن کی ساری کامیابی پر پھر سے پانی پھیر دیتی ہیں اور وہ آگے بڑھنے کی اُسی جدوجہد میں نئے سرے سے مصروف ہو جاتے ہیں۔

بنگلور شہر میں ٹریفک کے رَش کا ایک منظر، ’دی ہوپ فیکٹری‘ دراصل اسی شہر کی کہانی ہے
بنگلور شہر میں ٹریفک کے رَش کا ایک منظر، ’دی ہوپ فیکٹری‘ دراصل اسی شہر کی کہانی ہےتصویر: AP

اس ناول میں آنند کا پورا نام آنند کے مورتھی ہے، جو کاروں کے فاضل پُرزہ جات بنانے والی ایک کمپنی کا سربراہ ہونے کے ناتے ایک جاپانی کمپنی کے ساتھ کوئی بڑا کاروباری معاہدہ کرنے کا خواب دیکھتا رہتا ہے۔ کملا اُس کے گھر میں ملازمہ کی حیثیت سے کام کرتی ہے اور اپنے بچے کو تعلیم دلانا چاہتی ہے تاکہ وہ بڑا ہو کر اُسے غربت کی دلدل سے نکال سکے۔

لاونیا شنکرن نے اپنے کرداروں پر خوب محنت کی ہے اور اُن کے اُن احساسات کو بھی بیان کرنے کی کوشش کی ہے، جو کہیں بہت دور اُن کے لاشعور کے اندر چھُپے ہو سکتے ہیں۔ دراصل یہ کتاب ایک شہر کی کہانی ہے۔ اس ناول میں دکھایا گیا ہے کہ کیسے بھارت کے دوسرے بڑے شہروں کی طرح بنگلور میں بھی لوگ اپنے اونچے اونچے خوابوں اور دفتر شاہی کے انتہائی سست رفتار نظام کے بیچوں بیچ پھنس کر رہ گئے ہیں، کیسے پڑوسی اور رشتے دار آپ کی زندگی کے ہر چھوٹے بڑے معاملے میں مداخلت کرتے رہتے ہیں اور کیسے ہر جگہ صرف اور صرف بڑھتے کرایوں، مہنگائی اور پیسے کی کمی پر بات ہوتی رہتی ہے۔

اس ناول ’دی ہوپ فیکٹری‘ میں بھارتی معاشرے میں بدلتی اَقدار اور امیر اور غریب کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کا بھی ذکر کیا گیا ہے
اس ناول ’دی ہوپ فیکٹری‘ میں بھارتی معاشرے میں بدلتی اَقدار اور امیر اور غریب کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کا بھی ذکر کیا گیا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

خود لاونیا شنکرن کا تعلق بھی بنگلور سے ہی ہے۔ وہ یہیں پیدا ہوئیں، یہیں پلی بڑھیں اور آج کل یہیں اپنے شوہر اور ایک نو عمر بیٹی کے ساتھ رہائش پذیر بھی ہیں۔ لیکن اُنہوں نے ایک طویل عرصہ بنگلور سے دور بھی گزارا ہے۔ اُنہوں نے امریکی ریاست پینسلوینیا کے برِن مَور کالج سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی، جس کے بعد وہ نیویارک میں ایک بینک میں ملازمت بھی کرتی رہیں۔ وہ کاروباری اداروں کے لیے مُشیر کے طور پر بھی کام کرتی رہی ہیں تاہم بھارتی اخبار ’دی ہندو‘ کے ساتھ اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں لاونیا شنکرن نے کہا، ’مَیں ایک ادیبہ ہوں۔ اپنے باقی وقت میں مَیں نے خواہ جو بھی کچھ کیا ہو لیکن لکھنا لکھانا ہمیشہ میرا راستہ اور میری منزل رہا ہے‘۔

اس ناول میں بھارت کے تیزی سے بدلتے ہوئے معاشرے کی ایک جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ اس میں شہر کی گرد آلود، ٹیڑھی میڑھی اور کوڑے سے اَٹی گلیوں میں پھنسی ہوئی چمکتی دمکتی کاریں بھی دیکھی جا سکتی ہیں اور ایک دوسرے کے اوپر چڑھی ہوئی دوکانیں، ریستوراں اور رہائشی عمارتیں بھی، جنہیں دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ ایک دوسرے پر رکھے ہوئے یہ رنگا رنگ بے ترتیب ڈبّے شاید اگلے ہی لمحے زمین پر آ گریں گے۔

’دی ہوپ فیکٹری‘ لاونیا شنکرن کا پہلا ناول ہے البتہ اس سے پہلے اُن کی مختصر کہانیوں کی ایک کتاب ’دی رَیڈ کارپٹ‘ کے نام سے سامنے آ چکی ہے۔ اُس مجموعے میں شامل آٹھ کہانیوں کے کردار بھی بنگلور شہر میں انتہائی غربت اور امارت کے بیچوں بیچ زندگی کی تگ و دو میں مصروف نظر آتے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ لاونیا شنکرن اپنی تحریروں کے ذریعے بھارتی معاشرے کے ایسے رُخ سامنے لا رہی ہیں، جو اس سے پہلے اس انداز میں سامنے نہیں آئے تھے۔