1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لارج ہائیڈرون کولائیڈر دوبارہ فعال

عدنان اسحاق6 اپریل 2015

سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں کے قریب لارج ہائیڈرون کولائیڈر ’ ایل ایچ سی‘ نے اتوار پانچ اپریل سے دوبارہ کام شروع کر دیا ہے۔ اس کولائیڈر کو ایٹمی ذرات کے ٹکراؤ کے عمل کے مشاہدے کے لیے بنایا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1F3CR
تصویر: Getty Images/Richard Juilliart

نظریاتی طبیعات پر تحقیق کے یورپی مرکز سیرن (CERN) کے مطابق اگلی مرتبہ ایٹمی ذرات کے ٹکراؤ کے عمل کے دوران محققین پہلے کے مقابلے میں دوگنی توانائی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ مزید یہ کہ اسی لیے اس کولائیڈر کو اسی وجہ سے مزید بہتر بنانے کے لیے بند کیا گیا تھا۔ بیان کے مطابق یہ عمل طبیعات کی دنیا میں ایک نیا باب ثابت ہو گا اور کائنات کے بارے میں مزید رازوں کو افشا کرنے کا موقع ملے گا۔

سیرن کے ایک اعلی اہلکار فریدرک بورڈی نے اتوار کے اپنے ایک ٹویٹر پیغام میں اس مرکز کے دوبارہ کھلنے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’ یہ وہ اہم دن ہے‘‘۔ تقریباً دو سال کی بندش کے بعد لارج ہائیڈرون کولائیڈر میں ایٹمی ذرات کو دوبارہ سے ٹکرایا جائے گا۔ ایل ایچ سی کو جدید بنانے کے لیے بند کیا گیا تھا۔ اس دوران اس سرنگ میں لگے کیمروں کو بھی بہتر بنایا گیا ہے۔ اب یہ کیمرے تیز رفتاری سے گزرنے والے ذرات کی اور بھی بہتر انداز میں تصاویر بنا سکیں گے، جن سے محققین کو مزید معلومات حاصل ہوں گی۔

Cern Teilchenbeschleuniger Genf
تصویر: Getty Images/FABRICE COFFRINI

ایل ایچ سی تقریبا چار ارب یورو کی لاگت سے تیار کیا گیا ہے اور اسے دنیا کی سب سے بڑی مشین بھی کہا جاتا ہے۔ یہ فرانس اورسوئٹزرلینڈ کی مشترکہ سرحد پر 27 کلومیٹر طویل سرنگ میں بنایا گیا ہے۔

نظریاتی طبیعات اور مادی کائنات کا علم رکھنے والے ماہرین کا اس دنیا کے بارے میں ایک الگ ہی تصور ہے۔ وہ ایسی گمشدہ کڑی کی تلاش میں ہیں، جس کے ذریعے وہ کائنات اور فلکیات کے وجود کو بیان کر سکیں اورکائنات میں موجود دیگر تمام قوتوں کو بھی بیان کر سکے۔ دنیا کا یہ تصور بظاہرسائنس فکشن معلوم ہوتا ہے۔

سائنسدانوں کو یقین ہے کہ وہ اس عظیم الجثہ کولائیڈر میں ابتدائے کائنات کی تھیوری بگ بینگ کے فوری بعد کے حالات پیدا کرکے کائنات کی تشکیل کے بارے میں معلومات حاصل کرسکیں گے۔ اب تک لارج ہائیڈرون کولائیڈر میں 2.36 ٹیرا الیکٹران وولٹس کی طاقت سے ایٹمی ذرات کو ٹکرانے میں کامیابی حاصل کی جاچکی ہے۔ تاہم بگ بینگ کے بعد کے حالات پیدا کرنے کی کوشش کے لیے سائنسدان سات ٹیرا الیکٹران وولٹس توانائی کے ساتھ ان ذرات کو ٹکرانے میں کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔