1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لارج ہائیڈرون کولائیڈر اگلے برس دوبارہ کام شروع کر دے گا

عاطف توقیر16 دسمبر 2014

سوئٹزر لینڈ اور فرانس کی سرحد کے قریب واقع زیرزمین لارج ہائیڈرون کولائیڈر اگلے برس مارچ میں دوبارہ کام شروع کر دے گا۔ ماضی کے مقابلے میں اب یہ کولائیڈر دوگنی طاقت کے ساتھ ذرات کو ایک دوسرے سے ٹکرائے گا۔

https://p.dw.com/p/1E5Vz
تصویر: picture-alliance/dpa/Martial Trezzini

یورپی جوہری تحقیق کی ایجنسی سیرن کا لارج ہائیڈرون کولائیڈر اگلے برس مارچ میں دوبارہ کام شروع کر دے گا اور آغاز کے چند ہفتوں بعد ایک مرتبہ پھر ذرات کی ذرات سے ٹکراؤ کی سرگرمی بحال کر دی جائے گی۔ اس تحقیق کے ذریعے کائنات کی ابتدا اور بگ بینگ یا عظیم دھماکے کے بعد پیدا ہونے والے ذرات کی ماہیت اور نوعیت کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔

سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا کے قریب واقع دنیا کے اس سب سے بڑے پارٹیکل کولائیڈر یا ذرات کو ٹکرانے والی تجربہ گاہ گزشتہ دو برس سے جدیدیت اور آلات کو زیادہ طاقت ور بنانے کے عمل سے گزر رہی تھی۔ یورپی تنظیم برائے جوہری تحقیق (سیرن) کی جانب سے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس زیر زمین سرنگ میں پروٹان کی بیم مارچ میں دوڑنے لگے گی اور مئی میں ان پروٹانوں کو آپس میں ٹکرانے کا کام شروع ہو جائے گا۔

سیرن کے ڈائریکٹر جنرل رولف ہوئیر کی جانب سے جاری کردہ بیان میں بتایا گیا ہے، ’توانائی کی نئی سطح کے ساتھ یہ کولائیڈر طبیعات میں نئی جہتوں کا تعین اور مستقبل کی ایجادات کا باعث ہو گا۔ میں یہ دیکھنے کو مشتاق ہوں کہ فطرت نے ہمارے جاننے کے لیے کیا کچھ رکھا ہے۔‘

Peter Higgs CERN
اسی تجربہ گاہ نے سن 2012ء میں پیٹر ہِگز کی پیشن گوئی کے مطابق ہیگز بوسون دریافت کیا تھاتصویر: picture-alliance/dpa

واضح رہے کہ 27 کلومیٹر طویل اس زیرزمین سرنگ میں مشین کو ایک اعشاریہ نو ڈگری سینٹی گریڈ کے درجہ حرارت پر پہنچا دیا گیا ہے اور اب یہ اگلے تین برس تک کام کرتی رہی گی۔

سن 2012ء میں اسی کولائیڈر کے ذریعے جدید سائنس کی ایک عظیم دریافت ہگز بوسون سامنے آئی تھی، جس سے یہ معلوم ہوا تھا کہ ذرات میں کمیت کا باعث بننے والی فیلڈ ہِگز کیسے کام کرتی ہے، جو ذرات کو کمیت دے کر انہیں ستاروں اور سیاروں کی پیدائش کا باعث بناتی ہے۔

اس دریافت کو طبعیات میں ایک سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے، تاہم اب بھی بے شمار سوالات باقی ہیں، جن کا جواب ڈھونڈا جانا ہے اور ان میں سب سے اہم سوالات ڈارک میٹر یا سیاہ مادہ اور ڈارک انرجی یا سیاہ توانائی کی ماہیت کو سمجھنا شامل ہے۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ مادہ اس کائنات کا زیادہ سے زیادہ چار فیصد ہے جب کہ باقی کائنات اصل میں ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی پر مشتمل ہے۔ جدید اعداد و شمار کے مطابق کائنات کا 27 فیصد حصہ ڈارک میٹر اور 68 فیصد حصہ ڈارک انرجی سے بنا ہے۔

اس کے علاوہ اس تجربہ گاہ میں یہ جاننے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے کہ 13 اعشاریہ آٹھ ارب برس قبل بگ بینگ کے ذریعے تخلیق پانے والے میٹر یا مادہ اور اینٹی میٹر یا ردِ مادہ کی ایک جتنی مقدار پیدا ہوئی تھی، تاہم آیا یہ ردمادہ ختم ہو گیا، یا ذرات کی کسی اور شکل میں موجود ہے۔

متعدد سائنس دان سپر سیمٹری کے نظریے کے حامی ہیں، تاہم ابھی اس نظریے کی توثیق ہونا باقی ہے کہ جس میں پیشن گوئی کی گئی ہے کہ ہر ذرے کا ایک بھاری مگر نظر نہ آنے والا ’سپر‘ پارٹنر موجود ہے۔

تاہم ان سوالات کے جوابات ڈھونڈنے اور کہکشاں کی ماہیت کے اصل اندازے کے لیے سیرن کو زیادہ توانائی سے ان ذرات کے ٹکراؤ کی ضرورت تھی، جسے اب ان نئے اور جدید آلات کے ذریعے پورا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔