لائبیریا میں ایبولا کے کیسز میں کمی کے امکانات سامنے آنے لگے ہیں، صدر سرلیف
9 اکتوبر 2014شمالی لائبیریا کے انتہائی دُوردراز دیہات اور قصبوں کے دورے پر گئی ہوئی خاتون صدر ایلن جونسن سرلیف کا کہنا ہے کہ اُن کے لیے مختص کی گئی بین الاقوامی امداد کا عمل بہت سست ہے اور اگر یہ مناسب انداز میں پہنچ پاتی تو ایبولا وائرس کی افزائش کو کنٹرول کیا جا سکتا تھا۔ نیوز ایجنسی روئٹرز کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے لائبیریا کی صدر کا کہنا تھا کہ وہ اپنے اِس دورے سے لوگوں کو یہ امید اور یقین دلانا چاہتی یوں کہ وائرس کو شکست دی جا سکتی ہے۔
اپنے اسی دورے کے دوران صدر ایلن جونسن سرلیف کا یہ بھی کہنا تھا کہ لائبیریا کے بعض حصوں میں ایبولا وبا میں کمی کے آثار ظاہر ہوئے ہیں۔ دوسری جانب عالمی ادارہٴ صحت کا واضح طور پر کہنا ہے کہ مغربی افریقہ میں ایبولا وبا میں کمی کا کوئی امکان نہیں اور ابھی بھی یہ قابو سے باہر ہے۔ طبی امداد فراہم کرنے والی غیرسرکاری تنظیم ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز (MSF) کا کہنا ہے کہ لائبیریا کے دارالحکومت مونرویا میں قائم اُن کے طبی مرکز پر مریضوں کی تعداد میں کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ مونرویا میں غیر سرکاری تنظیم نے اپنے میڈیکل سینٹر میں مرضوں کے لیے بیڈز کی تعداد بڑھا کر ڈھائی سو کر دی ہے۔
لائبیریا کی صدر نے عالمی ادارہٴ صحت کی اُس تنبیہ کو مسترد کر دیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ اگلے ماہ کے اختتام تک ایبولا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد بیس ہز ار سے تجاوز کر سکتی ہے۔ صدر سرلیف کا کہنا ہے کہ ایبولا میں مبتلا افراد کا تعین اُن مریضوں سے ممکن ہے جن کو ایمرجنسی حفاظتی مراکز میں رجسٹرڈ کروایا جا رہا ہے یا انہیں علاج کے لیے پہنچایا جاتا ہے۔ لائبیرین صدر کے مطابق خصوصی حفاظتی مراکز میں دستیاب خالی بیڈز، اور مریضوں کی آمد کے ساتھ ساتھ ہلاکتوں کی تدفین کی تعداد سے ظاہر ہوا ہے کہ لائبیریا میں ایبولا کی وبا میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ لائبیریا میں ایبولا سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 21 سو سے تجاوز کر چکی ہے۔
ایبولا وائرس انسانی خون میں شامل ہو جاتا ہے اور رفتہ رفتہ کلیدی اعضاء ناکارہ ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور حتیٰ کہ مریض کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ اب تک ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق ایبولا مرض میں مبتلا ہو کر ہلاک ہونے والوں کی تعداد 39 سو تک پہنچ گئی ہے اور آٹھ ہزار سے زائد افراد اِس کے وائرس کی لپیٹ میں ہیں۔ ابھی تک تمام تر کوششوں کے باوجود ایبولا وائرس کے خلاف کوئی دوا تیار نہیں کی جا سکی ہے۔ امریکا، کینیڈا، جرمنی اور دوسرے ملکوں میں ویکسین کی تیاری کا عمل جاری ہے۔