1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قطر: گھریلو ملازماؤں کی دلخراش داستانیں

Jennifer Fraczek / امجد علی23 اپریل 2014

حقوقِ انسانی کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے 23 اپریل کو جاری کردہ اپنے ایک جائزے میں خلیجی عرب ریاست قطر میں گھریلو ملازماؤں کی حالتِ زار کو موضوع بنایا ہے۔

https://p.dw.com/p/1BnIh
خلیجی عرب ریاست قطر کے دارالحکومت دوحہ کا ایک منظر
خلیجی عرب ریاست قطر کے دارالحکومت دوحہ کا ایک منظرتصویر: Getty Images

ان ملازماؤں کا کہنا ہے کہ اُنہیں انتہائی کم اجرتوں پر ہفتے میں سو سو گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے، آرام کے وقفے یا چھٹی بالکل نہیں ملتی اور اُنہیں اپنے مالکان کی جانب سے جسمانی اور جنسی تشدد بھی سہنا پڑتا ہے۔

قطر میں ایک لاکھ تیس ہزار غیر ملکی شہری صفائی، کھانے پکانے اور بچوں کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ بطور ڈرائیور یا مالی بھی کام کرتے ہیں۔ تقریباً چوراسی ہزار خواتین ہیں جبکہ تقریباً اڑتالیس ہزار مرد۔ یہ لوگ قطر کے مقامی شہریوں کے ساتھ ساتھ یورپی، امریکی، ایشیائی اور افریقی مالکان کے ہاں بھی ملازمت کرتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق جنوبی ایشیا یا جنوب مشرقی ایشیا سے ہے۔

قطر میں نیپال سے گئے ہوئے کارکن تھکا دینے والے کام کے بعد اس طرح کے بستروں میں آرام کرتے ہیں
قطر میں نیپال سے گئے ہوئے کارکن تھکا دینے والے کام کے بعد اس طرح کے بستروں میں آرام کرتے ہیںتصویر: Sam Tarling

’بس نیند ہی میرا آرام کا وقفہ ہے‘ کے عنوان سے جاری کی گئی ایمنسٹی کی اس رپورٹ کے لیے اکتوبر 2012ء اور مارچ 2013ء کے درمیانی عرصے میں باون ملازماؤں سے گفتگو کی گئی۔ ساتھ ساتھ قطر کی داخلہ اور محنت کی وزارتوں سے بھی پوچھ گچھ کی گئی اور ان ملازماؤں کے آبائی ممالک کے سفارت خانوں سے بھی رابطہ قائم کیا گیا۔

ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے ایمنسٹی کی قطر سے متعلق امور کی ماہر ریگینا سپوئٹل نے بتایا کہ ’گھریلو ملازماؤں کے لیے کام کے حالات انتہائی سخت ہیں‘۔ ان ملازماؤں نے اپنے ساتھ بیتنے والے دلخراش واقعات بتاتے ہوئے کہا کہ اُنہیں مارا پیٹا جاتا ہے، بالوں سے پکڑ کر کھینچا جاتا ہے اور دھکا دے کر سیڑھیوں سے نیچے گرا دیا جاتا ہے۔ انڈونیشیا کی ایک خاتون کو چاقو کے زخم لگے ہوئے تھے جبکہ اُس کے سینے پر استری رکھ کر دبا دیے جانے کا بھی ایک زخم تھا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی قطر سے متعلق امور کی ماہر ریگینا سپوئٹل
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی قطر سے متعلق امور کی ماہر ریگینا سپوئٹلتصویر: privat

سپوئٹل کے مطابق تین خواتین نے یہ بھی بتایا کہ اُن کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی:’’جنسی زیادتی کے ان واقعات کی کہیں رپورٹ درج نہیں کروائی جاتی کیونکہ ان عورتوں کو یہ ڈر ہوتا ہے کہ وہ مظلوم کی بجائے الٹا ظالم بن جائیں گی کیونکہ اکثر ان پر غیر شائستہ چال چلن کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔‘‘

سپوئٹل نے کہا کہ اگرچہ یہ رپورٹ صرف باون خواتین کے ساتھ انٹرویوز پر مبنی ہے لیکن یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ گھریلو ملازماؤں کی تقریباً نصف تعداد کو قطر میں اپنے کام کے عرصے کے دوران کسی نہ کسی شکل میں ناروا سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کا ایک اور ثبوت یہ ہے کہ ان ملازماؤں کے آبائی ممالک کے سفارت خانوں میں ہر ہفتے کئی درجن شکایات درج کروائی جاتی ہیں۔ انسانی اسمگلنگ کے خلاف سرگرم عمل ایک قطری تنظیم QFCHT کے ہاں 2013ء میں ہر مہینے دو تا تین سو شکایات درج کروائی گئیں۔

مختلف ایجنسیاں پُر کشش وعدوں کے ساتھ ان خواتین کو قطر لاتی ہیں اور اُنہیں مختلف گھروں میں بھیجتی ہیں۔ سپوئٹل نے بتایا کہ قطر پہنچنے کے بعد یہ خواتین ہر اعتبار سے اپنے کفیل کی محتاج ہو جاتی ہیں۔ کفالت کے ملکی قانون کی رُو سے وہ نہ تو ملازمت کی جگہ بدل سکتی ہیں اور نہ ہی ملک چھوڑ سکتی ہیں۔ ایمنسٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ قطر میں ملازمت کے عمومی قوانین کو گھریلو ملازماؤں پر بھی لاگو کیا جائے، کفالت سے متعلق قانون کو ختم کیا جائے یا پھر اُس میں بنیادی نوعیت کی ترامیم متعارف کروائی جائیں۔ مزید یہ کہ اپنے آجر کو چھوڑ جانے والی خواتین کو آئندہ مجرم نہ سمجھا جائے اور گھر کے اندر اُن پر کیے جانے والے تشدد کو قابل تعزیر قرار دیا جائے۔

سپوئٹل نے بتایا کہ ایمنسٹی کی اس رپورٹ کی تفصیلات جاننے کے بعد قطری حکام نے حالات بہتر بنانے کا وعدہ کیا تھا تاہم ابھی تک کوئی اقدامات عمل میں نہیں لائے گئے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید