1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فیلے میں دوبارہ زندگی دوڑ سکتی ہے، یورپی ماہرین

24 دسمبر 2014

زمین سے 500ملین کلومیٹر کی دوری پر موجود ایک دمدار ستارے پر گزشتہ ماہ اتارا گیا کیپسول فیلے بیٹری ختم ہونے کے باعث کام کرنا چھوڑ گیا تھا۔

https://p.dw.com/p/1E9ky
تصویر: ESA via Getty Images

تاہم ماہرین نے اب کہا ہے کہ سورج کی روشنی پڑنے کے سبب اس کی بیٹریاں چارج ہو سکتی اور کومٹ کی برفانی سطح پر موجود یہ کیسپول دوبارہ کام شروع کر سکتا ہے۔

67۔ پی چوریوموف گیراسیمینکو 67P/Churyumov-Gerasimenko نامی کومٹ یا دمدار ستارے تک فیلے کو روزیٹا نامی خلائی جہاز کے ذریعے بھیجا گیا تھا۔ یہ خلائی جہاز اب بھی اس کومٹ کے گرد گردش کر رہا ہے اور اس کے بارے میں معلومات جمع کر رہا ہے۔

چار کلومیٹر وسیع یہ کومٹ اپنے مدار میں گردش کرتے ہوئے سورج کی جانب بڑھ رہا ہے۔ یورپی خلائی سائنسدانوں کے مطابق اگست 2015ء میں یہ سورج سے اپنے قریب ترین فاصلہ پر پہنچ جائے گا۔ درجہ حرارت میں اضافے کے باعث اس کومٹ پر موجود برف گیسوں کی شکل اختیار کر لے گی اور نتیجتاﹰ اس کے پیھچے ایک چکمدار دم نمودار ہو جائے گی۔ یہ پہلا موقع ہو گا جب اس فلکی جسم کی روزیٹا کے ذریعے اس قدر قریب سے تصاویر حاصل کی جائیں گی۔

ماہرین کو امید ہے کہ اپریل یا مئی تک فیلے کیبیٹریاں چارج ہو سکتی ہیں اور یہ اپنے تجربات دوبارہ شروع کر سکتا ہے
ماہرین کو امید ہے کہ اپریل یا مئی تک فیلے کیبیٹریاں چارج ہو سکتی ہیں اور یہ اپنے تجربات دوبارہ شروع کر سکتا ہےتصویر: DLR

ماہرین کو امید ہے کہ اپریل یا مئی تک فیلے نامی اس منی لیبارٹری کی بیٹریاں جو ایک واشنگ مشین کے سائز کا ہے، چارج ہو سکتی ہیں اور یہ اپنے تجربات دوبارہ شروع کر سکتی ہے۔

روزیٹا نے زمین سے روانہ ہونے کے بعد اس کومٹ تک پہنچنے میں 10 برس کا عرصہ لگایا۔ روزیٹا پر موجود فیلے کیپسول کو 12 نومبر کو کومٹ پر اتارا گیا۔ یہ پہلی کنٹرول لینڈنگ تھی۔ تاہم کومٹ کی سطح کو چھونے کے بعد بہت کم کشش ثقل کے باعث یہ سطح سے دوبار فضا میں بلند ہوا اور آخر کار ایک چٹان کے سائے میں جا کر ٹھہرا جہاں اس کے شمسی پینلز تک سورج کی روشنی نہیں پہنچ رہی تھی۔ نتیجتاﹰ لینڈنگ کے 64 گھنٹے بعد فیلے کی بیٹریوں کا چارج ختم ہو گیا اور اس کا زمین سے رابطہ منقطع ہو گیا تھا۔

خلائی سائنسدانوں کے مطابق نظام شمسی میں سورج کے گرد گردش کرتے کومٹ یا دمدار ستارے دراصل ایسے فلکیاتی اجسام ہیں جو 4.6 بلین برس قبل ہمارے نظام شمسی کے وجود میں آنے کے وقت چھوٹے ٹکڑوں کی صورت میں الگ رہ گئے تھے۔ جرمن ایرواسپیس سنٹر (DLR) کے ماہرین کو امید ہے کہ زیرمشاہدہ کومٹ سے حاصل شدہ معلومات سے یہ جاننے میں مدد مل سکے گی کہ زمین پر زندگی کا وجود کیسے ظہور میں آیا۔

ڈی ایل آر کے برلن میں قائم پلینیٹری ریسرچ انسٹیٹیوٹ ایک سائنسدان گیبریلے آرنلڈ Gabriele Arnold کے مطابق، ’’جیسے جیسے یہ کومٹ سورج کے قریب آئے گا، اس کے اندر سے زیادہ گیسیں باہر آئیں گی۔‘‘

یورپی خلائی تحقیقی ادارے ESA میں روزیٹا فلائٹ آپریشنز ڈائریکٹر آندریا آکومازو کے مطابق ’’سورج کے قریب پہنچنے پر یہ بہت زیادہ ایکٹیو ہو جائے گا اور اس کا مشاہدہ یقیناﹰ بہت دلچسپ ہو گا۔‘‘ روزیٹا سے حاصل شدہ ڈیٹا سے معلوم ہو چکا ہے کہ اس کومٹ پر ہائیڈروجن سلفائیڈ اور امونیا گیس جیسے کیمیائی عناصر موجود ہیں۔