1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فیری حادثہ: ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ

عاطف بلوچ17 اپریل 2014

جنوبی کوریا میں امدادی ٹیموں نے جمعرات کوسرچ آپریشن کا آغاز کر دیا ہے۔ منگل کے دن کوریا کے جنوب مغربی ساحل میں ایک مسافر بردار بحری جہاز ڈوبنے کی وجہ سے سات ہلاکتوں کی تصدیق کر دی گئی ہے جبکہ 290 ابھی تک لاپتہ ہیں۔

https://p.dw.com/p/1Bjs1
تصویر: REUTERS

اس مسافر بردار بحری جہاز کو حادثہ پیش آئے چوبیس گھنٹے سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے اور جیسے جیسے مزید وقت گزرتا جا رہا ہے، ویسے ویسے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ سرچ آپریشن میں شریک ایک اہلکار نے نیوز ایجنسی اے پی کو بتایا ہے کہ ہلاکتوں میں تیزی سے اضافے کا خدشہ ہے۔ سرچ آپریشن میں ماہر غوطہ خوروں کو ہیلی کاپٹروں اور بحری جہازوں کا تعاون بھی حاصل ہے۔ گزشتہ رات بھی امدادی کارروائیاں جاری رہیں اور سرچ آپریشن کے دوران تیز روشنیوں کا استعمال کیا گیا۔ اس دوران 87 بحری جہاز اور اٹھارہ ایئر کرافٹس نے امدادی کاموں میں شرکت کی۔

ایسے امکانات ظاہر کیے گئے ہیں کہ لاپتہ افراد ممکنہ طور پر یا تو ڈوبنے والے بحری جہاز کے اندر موجود ہیں یا پھر وسیع پانیوں میں کہیں گم ہو چکے ہیں۔ ساحلی محافظوں کے ترجمان چو مان یونگ نے جمعرات کے دن بتایا ہے کہ سمندر کی سطح پر ایک بچے کی لاش ملی ہے۔ ایسی خبریں بھی موصول ہو رہی ہیں کہ شاید اب مزید کوئی بھی مسافر زندہ نہیں بچا ہو گا۔ جاپان میں بنائے گئے چھ ہزار586 ٹن وزنی اس مسافر بردار بحری جہاز کو پیش آنے والے حادثے کی وجوہات ابھی تک معلوم نہیں ہو سکی ہیں۔

حادثے کے وقت اس فیری پر کم ازکم 450 افراد سوار تھے، جن میں ایک ہائی اسکول کے تقریباﹰ 340 طالب علم بھی سوار تھے۔ یہ جہاز Incheon کی بندگارہ سے سیاحتی مقام جیجو جزیرے کی طرف جا رہا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اس جہاز کے کپتان اور عملے سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔ ایک سو چھیالیس میٹر طویل اس بحری جہاز میں نو سو مسافروں کی گنجائش تھی۔

Südkorea Fährunglück 16.04.2014
امدادی کارروائیوں میں ہیلی کاپٹروں کی مدد بھی لی جا رہی ہےتصویر: REUTERS

امریکی بحریہ نے بھی امدادی کاموں میں تعاون کے لیے اپنا ایک خصوصی بحری جہاز روانہ کردیا ہے، جو جنوبی کوریائی حکام کو مدد فراہم کر رہا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ نیوی کے غوطہ خور حادثے کا شکار ہونے والے بحری جہاز کی تین منزلوں میں تلاشی کا کام مکمل کر چکے ہیں لیکن انہیں اس دوران کوئی مسافر نہیں ملا۔ گزشتہ رات تیز ہواؤں اور دھند کی وجہ سے امدادی کاموں میں خلل بھی پڑا لیکن حکام نے بتایا ہے کہ وہ اس کڑے وقت میں ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر جہاں تک ممکن ہے، اپنا آپریشن جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ایک مسافر کم سیونگ موک نے میڈیا کو بتایا ہے کہ جہاز کے عملے کی طرف سے ریسکیو آپریشن بہتر نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ سبھی کے پاس لائف جیکٹس موجود تھیں اور وقت بھی تھا لیکن عملے نے مسافروں کو پانی میں چھلانگ لگانے سے منع کر دیا تھا۔ ان کے بقول اگر مسافر کود جاتے تو انہیں بچایا جا سکتا تھا لیکن بہت سے لوگ جہاز کے اندر ہی پھنس کر رہ گئے۔ تاہم عملے کے ایک اہلکار اہو یونگ سیوک کے مطابق اچانک حادثے کے بعد جہاز ٹیڑھا ہو گیا تھا، جس کی وجہ سے فوری امدادی کارروائیاں متاثر ہوئیں۔

دوسری طرف جنوبی کوریا کی صدر پاک گن شہہ نے کہا ہے کہ وہ سرچ آپریشن ترک نہیں کریں گی اور مسافروں کو زندہ بچانے کے لیے تمام ممکن وسائل بروئے کار لائے جائیں گے۔ جنوبی کوریا میں 1993ء میں رونما ہونے والے ایک ایسے ہی حادثے میں 292 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔