1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فوج بھیجنے کا فیصلہ ابھی نہیں کیا، پاکستانی وزیر دفاع

شکور رحیم، اسلام آباد30 مارچ 2015

پاکستان نے اقوام متحدہ، اسلامی کانفرنس کی تنظیم اور عالمی برادری سے مشرق وسطٰی کے بحران کے سیاسی حل کی تلاش میں مثبت کردار کا مطالبہ کیا ہے جبکہ ’ملکی فوجی دستے سعودی عرب بھجوانے کا ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا‘۔

https://p.dw.com/p/1EzjD
تصویر: AP

پیر تیس مارچ کے روز پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کی صدارت میں اسلام آباد میں ایک اعلٰی سطحی اجلاس میں مشرق وسطٰی کی تازہ ترین صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ ایک سرکاری بیان کے مطابق اجلاس میں وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے علاوہ وزیر اعظم کے قومی سلامتی اور خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز، بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اور پاکستانی فضائیہ کے سربراہ ایئرچیف مارشل سہیل امان کے علاوہ دیگر اعلٰی حکام نے شرکت کی۔

Jemen schiitische Muslime
سعودی قیادت میں فضائی حملوں کے خلاف صنعاء میں مظاہرہ کرنے والے یمن کے حوثی باغیتصویر: Reuters/Khaled Abdullah

بیان کے مطابق اس اجلاس میں اعادہ کیا گیا کہ پاکستانی عوام کی خواہشات کے مطابق سعودی عرب کی خود مختاری اور سالمیت کی بھرپور حمایت کی جائے گی۔ اجلاس میں مشرق وسطٰی کی بگڑتی ہوئی صورتحال میں پاکستان کی جانب سے ایک بامعنی کردار ادا کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔

اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ مشرق وسطٰی کے بحران کے جلد حل اور امت مسلمہ میں امن و اتحاد کے فروغ کے لیے وزیر اعظم نواز شریف برادر مسلم ممالک کی قیادت سے رابطے کریں گے۔

اس اجلاس میں شرکت کے بعد ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ ان کی سربراہی میں ایک اعلٰی سطحی وفد کل منگل کو سعودی عرب جائے گا۔ خواجہ آصف نے کہا، ’’میرے علاوہ سرتاج عزیز اور مسلح افواج کے نمائندوں پر مشتمل ایک وفد منگل کی سہ پہر سعودی عرب کے لیے روانہ ہوگا۔ وفد کے اس دورے کا مقصد علاقائی صورتحال کا براہ راست جائزہ لینا اور سعودی قیادت کو اس بات کی یقین دہانی کرانا ہے کہ پاکستانی عوام اور حکومت کے لیے سعودی عرب کی خود مختاری اور سلامتی انتہائی اہم ہیں۔‘‘

Saudi Arabien führt Luftschläge gegen die Huthi-Rebellen im Jemen durch
پیر کے روز یمن پر سعودی سربراہی میں کیے جانے والے فضائی حملے پانچویں دن میں داخل ہو گئےتصویر: picture alliance/AA/Yiter

اس سوال کے جواب میں کہ آیا پاکستان یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف کارروائی میں براہ راست حصہ لے گا، خواجہ آصف نے کہا کہ اس بارے میں ابھی تک کوئی باضابطہ فیصلہ نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا، ’’ابھی تک وہی صورتحال ہے جو گزشتہ جمعے کو میں نے قومی اسمبلی کے ایوان میں بتائی تھی۔ ابھی تک فوجی دستے بھیجنے کے معاملے پر کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ اگر ایسی کوئی صورتحال پیدا ہوئی تو پاکستانی عوام کی نمائندہ قومی پارلیمان کو اعتماد میں لے کر ہی کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔‘‘

خیال رہے کہ سعودی عرب کی حمایت میں یمن کے حوثی باغیوں کے خلاف ملکی فوجی دستے بھجوانے کے معاملے پر پاکستان میں رائے عامہ منقسم ہے۔ اسی وجہ سے حکومت نے اب تک اس بارے میں کوئی دوٹوک موقف نہیں اپنایا۔

دفاعی امور کے تجزیہ کار بریگیڈیئر ریٹائرڈ اطہر منیر کہتے ہیں، ’’پاکستان کی پہلی کوشش یہی ہو گی کہ یمن کی صورتحال میں بہتری کے لیے کسی سیاسی عمل کا حصہ بنے اور موجودہ حالات میں لڑائی میں براہ راست حصہ نہ لیا جائے۔ لیکن اس بات کا دار و مدار یمن میں حوثی باغیوں کی پیشقدمی پر ہو گا۔ اگر وہ سعودی عرب کی طرف بڑھتے ہیں تو پھر پاکستان سعودی عرب کی فضائی اور بری لڑائی میں حصہ لے سکتا ہے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید