1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فرگوسن کی صورتحال پر مصری تنقید، امریکا کا ردعمل

عاطف توقیر20 اگست 2014

امریکی حکام نے مصری تنقید کا سختی سے جواب دیا ہے۔ مصر نے الزام عائد کیا تھا کہ امریکی سکیورٹی ادارے فرگوسن میں نسلی بنیادوں پر جاری مظاہروں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1CxFE
تصویر: Getty Images

واضح رہے کہ امریکی ریاست میسوری میں گزشتہ چند روز سے سیاہ فام شہری مظاہروں میں مصروف ہیں۔ یہ مظاہرے ایک سفید فام پولیس اہلکار کے ہاتھوں ایک سیاہ فام نوجوان کی ہلاکت کے بعد شروع ہوئے۔

منگل کے روز مصری وزارت خارجہ کے ترجمان بدر البطے نے کہا، ’’مصر جو مظاہرین کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کی وجہ سے عالمی تنقید میں ہے، فرگوسن میں مظاہرین کے خلاف سکیورٹی فورسز کے اقدامات کا بغور مشاہدہ کر رہا ہے۔‘‘

اس بیان کے ردعمل میں امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ماری ہارف کا کہنا تھا کہ امریکا اپنے مسائل کو شفافیت، دیانت داری اور کھلے پن کے ساتھ دیکھتا ہے اور وہ خود کو دنیا کے دیگر ممالک کے سامنے مثال کے طور پر رکھتے ہیں۔

عبدالبطے نے منگل کے روز اپنے بیان میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ’’بان کی مون کی بات ان واقعات کے حوالے سے بین الاقوامی موقف واضح کرتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ لوگوں کو پرامن انداز سے جمع ہونے اور احتجاج کرنے کا حق حاصل ہے۔‘‘

ماری ہارف کے مصری بیان پر اپنے ردعمل میں کہنا تھا، ’’جب فرگوسن جیسا کوئی واقعہ ہوتا ہے، تو امریکی اسے شفافیت، دیانتداری اور کھلے پن کے ساتھ دیکھتے ہیں اور ہم یہ امید کرتے ہیں کہ دیگر ممالک بھی ایسا ہی کریں۔‘‘ ہارف نے مزید کہا، ’’لوگ آزاد ہیں، وہ جو کہنا چاہیں کہیں۔ ہم یہاں اس پر پوری طرح یقین رکھتے ہیں۔ یہی آزادی اظہار ہے۔‘‘

یہ بات اہم ہے کہ رواں ماہ کی نو تاریخ کو فرگوسن شہر کے سینٹ لوئس علاقے کے قریب پیش آنے والے واقعے میں پولیس اہلکار کے ہاتھوں سیاہ فام نوجوان کی ہلاکت کے بعد شدید تناؤ پیدا ہو گیا تھا، جس میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہے۔

ماری ہارف نے مصر کے حوالے سے کہا، ’’گزشتہ برس مصر میں جو کچھ ہوا، اس پر ہمارا موقف بہت واضح ہے، اس پر ہمیں شدید تشویش ہے کہ گزشتہ برس مصر میں کیا ہوا۔۔۔ پرامن مظاہرین اور صحافی ایک برس بعد بھی جیلوں میں قید ہیں اور حال ہی میں ہم نے ایک بہت بڑی تعداد کو سزائے موت سنائے جانے کے واقعات بھی دیکھے ہیں۔‘‘

واضح رہے کہ گزشتہ برس جولائی میں مصری فوج نے منتخب صدر محمد مرسی کو برطرف کرنے کے بعد اخوان المسلمون کے خلاف ایک سخت کریک ڈاؤن شروع کیا تھا۔ گزشتہ برس اگست میں صرف ایک دن میں سکیورٹی فورسز نے سات سو سے زائد افراد کو ہلاک کیا تھا، جب کہ سینکڑوں افراد اب بھی حراستی مراکز میں ہیں۔