1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فرانس، نعرہ تکبیر کے ساتھ دوسرے روز بھی حملہ

عاطف بلوچ22 دسمبر 2014

فرانس کے شمالی شہر ڈیژوں کی پولیس نے ایک ایسے شخص کو گرفتار کر لیا ہے، جس نے اپنی گاڑی دانستہ طور پر راہگیروں پر چڑھا کر کم ازکم گیارہ افراد کو زخمی کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1E8Ob
تصویر: picture-alliance/dpa

خبر رساں ادارے روئٹرز نے فرانسیسی شہر ڈیژوں سے موصولہ اطلاعات کے حوالے سے بتایا ہے کہ اتوار کے دن رونما ہونے والے اس واقعے میں زخمی ہونے والوں میں سے دو شدید زخمی ہیں تاہم ان کی حالت خطرے سے باہر ہیں۔ راہگیروں نے کہا ہے کہ جب اس شخص نے گاڑی راہگیروں پر چڑھائی تو وہ اللہ اکبر کے نعرے بلند کر رہا تھا۔ تاہم پولیس نے اس مخصوص الزام کی تصدیق نہیں کی ہے۔

فرانسیسی وزارت داخلہ کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ گاڑی پر سوار حملہ آور کی عمر تقریبا چالیس برس ہے اور اس نے نصف گھنٹے کے دوران پانچ مختلف مقامات پر راہگیروں کو نشانہ بنایا۔ بعدازاں پولیس نے اس شخص کو گرفتار کر کے پوچھ گچھ کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ سرکاری بیان کے مطابق ابھی تک اس حملے کے محرکات معلوم نہیں ہو سکے ہیں۔

Polizisten erschießen "Allahu Akbar" rufenden Mann mit Messer
فرانسیسی شہرٹوئر میں ہفتے کے روز چاقو سے مسلح ایک حملہ آور نے نعرہ تکبیر لگاتے ہوئے تین پولیس اہلکاروں کو زخمی کر دیا تھاتصویر: Souvant/AFP/Getty Images

فرانسیسی شہرٹوئر میں ہفتے کے روز چاقو سے مسلح ایک حملہ آور نے بھی نعرہ تکبیر لگاتے ہوئے تین پولیس اہلکاروں کو زخمی کر دیا تھا۔ مسلسل دوسرے روز رونما ہونے والے اس پرتشدد واقعے کے تناظر میں فرانس بھر میں سکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی ہے۔

یہ امر اہم ہے کہ فرانسیسی فوج عراق میں اسلامک اسٹیٹ کے خلاف جاری امریکی عسکری مہم کا حصہ ہے۔ اس تناظر میں جہادیوں نے اپنے حمایتیوں پر زور دیا ہے کہ وہ فرانس میں اپنے طور پر ہی حملے کریں۔

فرانسیسی وزارت داخلہ نے بتایا ہے کہ اتوار کے واقعے میں حملہ آور رینو کلیو نامی گاڑی پر سوار تھا اور 1990ء میں وہ مبینہ طور پر معمولی جرائم کا مرتکب ہونے کی وجہ سے پولیس کے ریکارڈ میں تھا۔ مزید کہا ہے گیا ہے کہ ڈیژوں اور ٹوئر کے واقعات میں کسی ربط پر بیان دینا قبل از وقت ہو گا۔ بتایا گیا ہے کہ اس حملے کا اسلامی انتہا پسندی سے ممکنہ تعلق جاننے کے لیے تفتیشی عمل شروع کر دیا گیا ہے۔

عینی شاہدین نے پولیس کو بتایا ہے کہ حملہ آور نے اپنی گاڑی راہگیروں پر چڑھاتے ہوئے اللہ اکبر کے نعرے بلند کیے اور چلایا کہ وہ یہ کام فلسطین کے بچوں کے لیے کر رہا ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ حملہ آور 1974 میں پیدا ہوا تھا اور بظاہر اس کا ذہنی توازن بھی درست معلوم نہیں ہوتا۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ وہ ذہنی دباؤ کے علاج کے لیے نفسیاتی کلینک بھی جاتا رہا ہے۔