1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فائر بندی میں توسیع نہیں لیکن مذاکرات جاری رکھیں گے، پاکستانی طالبان

عاطف بلوچ17 اپریل 2014

تحریک طالبان پاکستان نے فائر بندی کی مدت میں توسیع کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ امن مذاکرات جاری رکھنے کے لیے تیار ہے۔

https://p.dw.com/p/1Bjq8
تصویر: DW/Adnan Gran

پاکستان کے اس کالعدم شدت پسند گروہ نے تقریباﹰ ایک ماہ قبل امن مذاکرات کی کامیابی کے لیے یک طرفہ فائر بندی کا اعلان کیا تھا۔ حکومت پاکستان کے ساتھ مذاکرات جاری رکھنے کی خواہش کے باوجود بدھ کے دن اس شدت پسند تحریک نے کہا ہے کہ وہ اس فائر بندی کی مدت میں توسیع نہیں کرے گی۔ پاکستانی طالبان کی طرف سے یہ اچانک اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب ایک روز قبل ہی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی نے کہا تھا کہ طالبان کے ساتھ جامع مذاکراتی عمل رواں ہفتے ہی شروع کر دیا جائے گا۔ یہ امر اہم ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف سمجھتے ہیں کہ ملک میں گزشتہ سات برس سے جاری بد امنی کا خاتمہ امن مذاکرات میں ہی پنہاں ہے۔

امریکی خبر رساں ادارے اے پی نے بتایا ہے کہ پاکستانی طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد کی طرف سے میڈیا کو ارسال کی گئی ایک ای امیل میں حکومت پاکستان پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ اس نے فائر بندی کے دوران بھی طالبان کے خلاف کارروائیاں جاری رکھیں، ’’اس لیے تحریک طالبان کی مرکزی شوریٰ نے متقفہ طور پر فیصلہ کیا ہے کہ فائر بندی میں مزید توسیع نہ کی جائے۔‘‘ تاہم اس نے کہا کہ اسلام آباد حکومت کے ساتھ مذاکراتی عمل ’انتہائی خلوص اور سنجیدگی‘ سے جاری رکھا جائے گا۔

Chaudhry Nisar Ali Khan
پاکستانی وزیر داخلہ چوہدری نثار علیتصویر: picture-alliance/dpa

اس کالعدم تحریک کی طرف سے جاری کیے گئے بیان میں ایسا کوئی اشارہ نہیں ہے کہ وہ فوری طور پر حملے شروع کر دے گی یا یہ صرف حکومت پر دباؤ بڑھانے کی غرض سے کیا گیا ہے۔ اس شدت پسند گروہ کی کوشش رہی ہے کہ حکومتی رٹ کو ختم کرتے ہوئے ملک میں سخت اسلامی قوانین نافذ کر دیے جائیں۔ اسی دوران ان شدت پسندوں کی طرف سے کیے گئے حملوں میں ہزاروں افراد لقمہ اجل بھی بن چکے ہیں۔

تحریک طالبان پاکستان نے یکم مارچ کو فائر بندی کا اعلان کیا تھا اور بعد ازاں اس میں دس دن کے لیے توسیع بھی کر دی تھی۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان میں پرتشدد واقعات نہیں تھمے تھے۔ جمعرات کو ختم ہونے والی فائر بندی کے بعد طالبان کی طرف سے پہلی مرتبہ کوئی بیان جاری کیا گیا ہے۔

پاکستانی طالبان اور حکومت کے مابین براہ راست مذاکرات کا ایک دور 26 مارچ کو منعقد کیا گیا تھا، جس کے بعد اتوار کے دن وزیر داخلہ چوہدری نثار علی نے ایسی امید کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان میں قیام امن کی کوششوں کے سلسلے میں رواں ہفتے ہی جامع مذاکراتی عمل شروع کر دیا جائے گا۔ نثار علی کے اس بیان کے بعد ایسی قیاس آرائیاں ماند پڑتی دکھائی دے رہی تھیں کہ شاید طالبان کے ساتھ مذاکرات بے ثمر ہی رہیں گے تاہم طالبان کے اس تازہ بیان نے صورتحال ایک مرتبہ پھر پیچیدہ بنا دی ہے۔

حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کا آغاز کرنے والی طالبان کی نمائندہ کمیٹی کے سابق رکن پروفیسر ابراہیم نے اس پیشرفت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ’’یہ ایک خطرناک بیان ہے۔ تاہم میری کوشش ہو گی کہ تناؤ کو ختم کرتے ہوئے فائر بندی کی مدت میں توسیع کرا دی جائے۔‘‘ دوسری طرف طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل کے بارے میں شک رکھنے والے حلقوں کا خیال ہے کہ ماضی میں بھی طالبان نے مذاکرات کے بہانے صرف طاقت ہی جمع کی تھی۔

اسلام آباد میں قائم ’سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی اسٹیڈیز‘ کے سربراہ کہتے ہیں کہ شدت پسند ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہیں کیونکہ حکومت نے انہیں کچھ خاص پیشکش نہیں کی ہے۔ ان کے بقول پاکستانی حکومت کا اصرار ہے کہ مذاکرات آئینی تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہی کیے جا سکتے ہیں جبکہ دوسری طرف طالبان ان تقاضوں کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ طالبان کی طرف سے فائر بندی میں توسیع نہ کرنے پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے خبردار کیا، ’’شاید ہم جلد ہی پر تشدد کارروائیاں نہیں دیکھیں گے لیکن ہمیں اس کے لیے تیار رہنا چاہیے۔‘‘