1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غیر محتاط رویہ، تیس سے زائد افراد ڈوب گئے

رفعت سعید1 اگست 2014

پاکستان میں غیر محتاط رویے اور غیرذمہ دارانہ طرز عمل کی وجہ سے اکثر لوگ اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں۔ عید کے پر مسرت لمحات میں خوشیاں منانے کے لیے کراچی کے ساحل سمندر پر آنے والے 33 افراد اپنی زندگی موجوں کی نذر کر گئے۔

https://p.dw.com/p/1CnVL
تصویر: DW/Johannes Beck

کمشنر کراچی شعیب احمد صدیقی کی نگرانی میں عید کے تیسرے روز باقاعدہ طور پر سرچ آپریشن کا آغاز ہوا جس میں پاک بحریہ کے سی کنگ ہیلی کاپٹرز اور غوطہ خوروں نے اہم کردار ادا کیا۔ شعیب احمد صدیقی نے ڈوچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ مون سون سیزن کے باعث سترہ جون کو سمندر میں نہانے پر پابندی عائد کردی گئی تھی اور ساحلوں پر لائف گارڈز کے علاوہ پولیس اہلکار بھی تعینات کیے گئے تھے لیکن تفریح کے لیے آنے والے افراد خصوصاً نوجوان ان سے لڑتے جھگڑے رہے‘‘۔ کمشنر مزید کہتے ہیں تمام ذمہ داری اداروں پر نہیں ڈالی جاسکتی۔ شہریوں کو خود بھی ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنا ہو گا۔

زندگی کی بازی ہارنے والوں میں کراچی کے پسماندہ علاقوں کے لوگ تھے۔ ان میں سے زیادہ تر بنارس، سہراب گوٹھ، کورنگی، اورنگی ٹاؤن اور منظور کالونی کے رہائشی تھے۔

کلفٹن کے ساحل پر تین دن گزر جانے کے باوجود ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں جو اپنے پیاروں کی لاشوں کے منتظر ہیں۔ وہاں موجود شخص سیف الرحمان نے ڈوچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ وہ عید کے دوسرے روز شام کے وقت اپنے چھوٹے بھائی اور دو دوستوں کے ہمراہ تفریح کے لیے یہاں آیا تھا اور اس کے دونوں دوست ڈوب گئے۔ ایک نوجوان ہارون کی بھی یہی داستان ہے کہ اس کے دو عزیز سمندر میں نہاتے ہوئے اس کی آنکھوں کے سامنے ڈوب گئے۔

کلفٹن پولیس نے سانحہ کے باوجود پابندی کی خلاف ورزی کرنے والے دو درجن افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ کراچی بلکہ پورے پاکستان میں کلفٹن کا ساحل جو عرف عام میں سی ویو کے نام سے جانا جاتا ہے سمندر میں نہانے کے حوالے سے محفوظ تصور کیا جاتا ہے۔

ڈی آئی جی ساؤتھ زون عبدالخالق شیخ کہتے ہیں ہر تہوار کے موقع پر سی ویو کے ساحل پر ہزاروں لوگ آتے ہیں اور کبھی اتنی بڑی تعداد میں اموات نہیں ہوئیں۔ انہیں شبہ ہے کہ کوئی غیر معمولی لہر یا پھر کسی اور تغیراتی تبدیلی اس کا سبب ہوسکتی ہے۔ مگر ان کے مطابق نقص امن کے حوالے سے پولیس اہلکارساحل پر تعینات تھے جبکہ محکمہ موسمیات کی جانب سے کسی اور خطرے کی کوئی پیشنگوئی نہیں تھی۔‘‘

ڈپٹی کمشنر جنوبی مصطفٰی جمال نے تینتیس افراد کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے شبہ ظاہر کیا ہے کہ ابھی مزید کئی لاشیں سمندرمیں موجود ہیں۔ ڈپٹی کمشنر کا کہنا ہے کہ تلاش کے لیے پاک بحریہ کے ہیلی کاپٹرز، اسپیڈ بوٹس اور غوطہ خور سمندر میں ہیں۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ مون سون سیزن کے باوجود ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے ریسکیو انتظامات جامع اور مربوط نہیں تھے اور اب سمندرمیں نہانے پر عائد پابندی اس وقت تک نہیں اٹھائی جائے گی جب تک انتظامات پورے نہیں کر لیے جاتے۔‘‘