1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غزہ کی جنگ: امریکا سے تعلقات پر اثرات اسرائیل کا بڑا نقصان

عصمت جبیں20 اگست 2014

غزہ میں مستقل فائر بندی کی کوششوں کی ناکامی کے بعد اسرائیل اور فلسطینیوں نے ایک دوسرے کے اہداف پر حملے پھر شروع کر دیے ہیں جبکہ امریکا سے تعلقات پر پڑنے والے منفی اثرات اسرائیل کے لیے اس جنگ کے بڑے نقصانات میں شامل ہیں۔

https://p.dw.com/p/1CyCc
تصویر: REUTERS

قاہرہ میں مصر کی ثالثی میں ہونے والے دیرپا فائر بندی سے متعلق بالواسطہ مذاکرات کل منگل کے روز ناکام ہو گئے تھے۔ اس بات چیت کی ناکامی کے ایک روز بعد آج بدھ کو عسکریت پسند فلسطینیوں کی طرف سے غزہ پٹی کے علاقے سے اسرائیل کی طرف ایک بار پھر درجنوں راکٹ فائر کیے گئے۔ ان راکٹ حملوں کے جواب میں اسرائیلی فضائیہ نے غزہ میں نئے سرے سے بہت سے اہداف کو فضائی حملوں کا نشانہ بنایا۔

انہی میں سے ایک حملہ فلسطینی تنظیم حماس کے عسکری بازو قسام بریگیڈ کے سربراہ محمد ضیف کے گھر پر کیا گیا۔ اس اسرائیلی حملے کا ہدف غزہ سٹی کے علاقے شیخ رضوان میں ایک ایسا چھ منزلہ گھر تھا، جو قسام بریگیڈ کے کمانڈر کی رہائش گاہ تھا اور جو بالکل تباہ ہو گیا۔

Obama gibt Statement zu Ferguson ab
امریکا میں باراک اوباما اور اسرائیل میں بینجمن نیتن یاہو دونوں ہی 2009ء کے اوائل میں اقتدار میں آئے تھےتصویر: Reuters

غزہ سٹی سے موصولہ خبر ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق فلسطینی تنظیم حماس کے ذرائع نے تصدیق کر دی ہے کہ ایک اسرائیلی جنگی طیارے سے کیے گئے اس راکٹ حملے میں حماس کے عسکری بازو کے سربراہ کی بیوی اور ایک بچہ ہلاک ہو گئے۔ محمد ضیف کا شمار ان سرکردہ عسکریت پسند فلسطینیوں میں ہوتا ہے جو عشروں سے اسرائیل کو مطلوب ہیں۔ یہ واضح نہیں کہ آیا اس حملے کے وقت محمد ضیف اپنے گھر پر تھے۔

اسرائیل کا بڑا نقصان

ادھر خبر ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس نے فلسطینی اسرائیلی تنازعے کے بارے میں یروشلم سے اپنے ایک جائزے میں لکھا ہے کہ اگر اسرائیل یہ اندازہ لگانے کی کوشش کرے کہ حماس کے ساتھ تازہ ترین جنگ میں اسے اب تک کتنا نقصان ہوا ہے، تو اسے شاید اس نتیجے تک پہنچنا پڑے کہ اس کے سب سے بڑے نقصانات میں وہ امریکی اسرائیلی تعلقات بھی شامل ہیں جن پر بہت منفی اثر پڑا ہے۔

اسرائیل اور امریکا دونوں ہی کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ روایتی طور پر بہت قریبی تعلقات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ امریکا میں باراک اوباما اور اسرائیل میں بینجمن نیتن یاہو دونوں ہی 2009ء کے اوائل میں اقتدار میں آئے تھے۔ شروع ہی سے کئی معاملات میں دونوں رہنماؤں کی رائے ایک جیسی نہیں۔ خاص طور پر اس بارے میں تو اوباما اور نیتن یاہو کی آراء ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہیں کہ ایرانی ایٹمی پروگرام سے متعلق تنازعہ کیسے حل کیا جانا چاہیے۔ دوسرا بڑا اختلاف رائے فلسطینیوں کے ساتھ امن بات چیت کے بارے میں ہے۔

Israel Gaza Angriff 20.08.2014
اسرائیل اور فلسطینیوں نے ایک دوسرے کے اہداف پر حملے پھر شروع کر دیےتصویر: Reuters

بطور ثالث امریکا کی بجائے مصر کو ترجیح

خبر ایجنسی اے پی نے لکھا ہے کہ غزہ پر اسرائیلی زمینی اور فضائی حملوں کے نتیجے میں فلسطینی شہریوں کی بہت زیادہ ہلاکتوں پر امریکا نے جو تنقید کی تھی، اسرائیل اس پر خوش نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل نے امریکی ثالثی کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے مصر کے ساتھ مل کر کام کرنے کو ترجیح دی۔ یہی نہیں جب امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے فریقین کے مابین فائر بندی کے لیے کوششیں کیں، تو کئی اعلیٰ اسرائیلی عہدیداروں نے جان کیری پر ذاتی حملے بھی شروع کر دیے۔ ان کا ایک الزام یہ بھی تھا کہ کیری حماس کو بہت بڑی پیشکشیں کرنے لگے تھے۔

ایک اسرائیلی کالم نگار شموئل روزنر کے مطابق موجودہ امریکی اسرائیلی اختلافات کی خاصیت وہ بڑی خلیج ہے، جس کی وجہ نیتن یاہو اور اوباما کا دنیا کو ایک دوسرے سے بالکل مختلف انداز میں دیکھنا ہے۔ شموئل روزنر کے بقول دونوں رہنماؤں کے مابین چھ سالہ شکوک و شبہات کے نشانات بہت گہرے ہیں اور اگلے دو سال کے دوران بھی موجودہ صورت حال میں کوئی بہتری دیکھنے میں نہیں آئے گی۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اسی لیے غزہ کی جنگ کے اسرائیل کے لیے سب سے بڑے نقصانات میں یہ بھی شامل ہے کہ امریکی اسرائیلی روابط پر اور بھی منفی اثر پڑا ہے اور دوطرفہ خلیج مزید گہری ہو گئی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید