غزہ میں کارروائی طویل ہو گی، اسرائیلی وزیر اعظم
29 جولائی 2014جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے حوالے سے بتایا ہے کہ غزہ پٹٰی میں اسرائیلی فوجی کارروائی کا مقصد حماس کی طرف سے بنائی گئی سرنگوں کا خاتمہ ہے۔ اسرائیل الزام عائد کرتا ہے کہ حماس کے جنگجو ان سرنگوں کو استعمال کرتے ہوئے اسرائیل پر حملے کرتے ہیں۔ نیتن یاہو نے پیر کے دن کہا کہ بالخصوص ایسی سرنگوں کو مکمل تباہ کر دیا جائے گا، جو اسرائیلی سرحدوں کے نزدیک نکلتی ہیں۔
نیتن یاہو کا مزید کہنا تھا، ’’ ہم جارحانہ انداز میں اور ذمہ داری کے ساتھ اپنی کارروائی اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک اپنے شہریوں، فوجیوں اور بچوں کو تحفظ فراہم کرنے کا ہمارا مشن مکمل نہیں ہو جاتا۔‘‘ حماس کی طرف سے راکٹ حملوں کے جواب میں اسرائیلی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) نے آٹھ جولائی کو غزہ میں فضائی کارروائی شروع کی تھی، جس کے دس دنوں بعد اسرائیلی بری افواج غزہ میں داخل ہو گئی تھیں۔ اب تک اس تنازعے میں ایک ہزار پچاس سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر شہری بتائے جاتے ہیں۔ غزہ طبی ذرائع کے مطابق ان ہلاک شدگان میں دو سو بچے بھی شامل ہیں۔
پیر کے دن بھی اسرائیلی فوج اور حماس کے جنگجوؤں کے مابین جھڑپیں جاری رہیں۔ اسرائیلی فوج کے مطابق پیر کے دن اس کے مزید پانچ فوجی مارے گئے۔ یوں مجموعی طور پر اس لڑائی میں اڑتالیس اسرائیلی فوجی اور تین شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ پیر کے دن عیدالفطر کے موقع پر بھی اسرائیلی فضائیہ نے غزہ میں اپنی کارروائی جاری رکھی، جس کے نتیجے میں دس ہلاکتوں کی اطلاعات ہیں۔ دوسری طرف حماس کی طرف سے بھی راکٹ اور مارٹر حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔
تازہ اطلاعات کے مطابق منگل کی صبح اسرائیلی فضائیہ نے حماس کے رہنما اسماعیل ہانیہ کی رہائش گاہ کو نشانہ بنایا ہے تاہم اس واقعے میں کسی جانی نقصان کی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔ قبل ازیں گزشتہ رات رفاہ بارڈر پر اسرائیلی شیلنگ میں سات مزید افراد ہلاک ہوئے۔ اسی طرح گزشتہ روز عید الفطر کے پہلے دن غزہ کے ایک پارک میں ہونے والے ایک راکٹ حملے میں دس فلسطینی ہلاک ہوئے، جن میں نو بچے بھی شامل تھے۔ حماس اور اسرائیل دونوں ہی اس حملے کے لیے ایک دوسرے کو ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔
اسی اثناء عالمی برداری اسرائیل اور حماس کے مابین فائر بندی کی کوششوں میں تیزی لے آئی ہے۔ پیر کو امریکی صدر باراک اوباما، جرمن چانسلر انگیلا میرکل، فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ، برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کمیرون اور اطالوی وزیر اعظم ماتیو رینزی نے ایک ٹیلی فونک کانفرنس کے دوران اتفاق کیا کہ وہ مشرقی وسطیٰ میں قیام امن کے لیے جاری اپنی کوششیں دوگنا کر دیں گے۔ فرانسیسی صدر دفتر سے جاری کیے گئے ایک بیان میں مزید کہا گیا کہ بگڑتی ہوئی صورتحال کے باعث صرف انتہا پسندوں کو ہی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
ادھر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے بھی غزہ میں شہری ہلاکتوں پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کے نصف شہری غیر محفوظ ہو چکے ہیں۔ انہوں نے اس تنازعے کے خاتمے کے لیے اپیل کرتے ہوئے مزید کہا، ’’غزہ کے عوام کے پاس اس صورتحال سے فرار ہونے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔‘‘
ایک طرف عالمی سطح پر اسرائیلی وزیر اعظم پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے کہ وہ فائر بندی کا حصہ بن جائیں تاہم دوسری طرف داخلی سطح پر عوام ان کے ساتھ ہے کہ وہ غزہ میں اپنی کارروائی کا سلسلہ جاری رکھیں۔ اسرائیلی چینل 10 ٹی وی کی طرف سے کرائے گئے ایک سروے کے نتائج کے مطابق 83 فیصد عوام غزہ میں حماس کے خلاف عسکری مہم کے حق میں ہیں جبکہ صرف سات فیصد مکمل فائر بندی کے حق میں ہیں۔