1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غزہ: قسطوں میں موت ختم ہونی چاہیے، تبصرہ

Loay Mudhoon / امجد علی29 جولائی 2014

غزہ میں مستقل فائر بندی کے لیے عالمی برادری کی تمام تر اپیلوں کے باوجود اسرائیل اور حماس ایک دوسرے کے خلاف لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں اور فریقین میں موجود انتہا پسندانہ عناصر جنگ بند کرنے میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کر رہے۔

https://p.dw.com/p/1Cl1f
ایک فلسطینی لڑکی 28 جولائی کو غزہ میں اُس اسرائیلی حملے پر اپنے جذبات کا اظہار کر رہی ہے، جس میں آٹھ بچے اور دو بالغ افراد مارے گئے، اسرائیل کے مطابق یہ تباہی حماس کے اپنے ہی ایک راکٹ حملے کے باعث ہوئی، جو اپنے ہدف کی بجائے غلطی سے وہاں جا گرا تھا
غزہ کی ایک فلسطینی لڑکی 28 جولائی کو اُس اسرائیلی حملے کے فوراً بعد رو رہی ہے، جس میں آٹھ بچے اور دو بالغ افراد مارے گئے، اسرائیل کا کہنا ہے کہ یہ حملہ اُس نے نہیں کیاتصویر: Reuters

وقت کے ساتھ ساتھ اسرائیلی فوجی آپریشن عملاً فلسطینی شہری آبادی کے خلاف جنگ کی حیثیت اختیار کر گیا ہے، جس کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ اب تک مارے جانے والے ایک ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کی تقریباً دو تہائی تعداد بے گناہ بچوں اور خواتین پر مشتمل ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے، خاص طور پر اس لیے بھی کہ حماس کی جانب سے برسائے جائے جانے والے بے مقصد اور تکنیکی اعتبار سے خام راکٹ کسی فوجی مرکز کی طرف نہیں پھینکے جاتے بلکہ شہری آبادی کو نشانہ بنانے کے لیے فائر کیے جاتے ہیں۔ شہریوں پر راکٹ حملے ہمیشہ ایک جرم ہیں، جس کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے۔

28 جولائی کو غزہ میں ایک اسرائیلی حملے کے فوراً بعد کا ایک منظر
28 جولائی کو غزہ میں ایک اسرائیلی حملے کے فوراً بعد کا ایک منظرتصویر: picture-alliance/dpa

تاہم دوسری طرف اسرائیلی جوابی کارروائی بھی حدود کے اندر رہتے ہوئے اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق ہونی چاہیے۔ یہ بات واضح طور پر نظر آ رہی ہے کہ اسرائیل کی جانب سے رہائشی عمارات، ہسپتالوں، حتیٰ کہ اقوام متحدہ کے زیر انتظام اسکولوں پر بھی کیے جانے والے حملے نہ صرف مناسب حدود سے زیادہ ہیں بلکہ بین الاقوامی قانون سے بھی مطابقت نہیں رکھتے۔ ماضی کی طرف ایک نگاہ ڈال کر دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ حماس کے مسلح جنگجوؤں کے خلاف کیے جانے والے اسرائیلی حملوں کے نہ ختم ہونے والے سلسلے بھی اسرائیلی شہریوں کے لیے سلامتی کا پیغام لے کر نہیں آئے۔

سیاسی عمل ناگزیر ہے

بلا شک و شبہ تشدد کا فوری خاتمہ تمام تر سفارتی کوششوں کی اوّلین ترجیح ہونی چاہیے تاہم حقیقت یہ ہے کہ اس بار تشدد روکنے اور آئندہ کسی محاذ آرائی سے بچنے کے لیے عام سی فائر بندی کافی نہیں ہو گی۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ واپس ایک مؤثر اور ٹھوس سیاسی عمل کی طرف جایا جائے۔ موجودہ حالات میں بظاہر یہ بات ناقابلِ تصور معلوم ہوتی ہے تاہم مستقل امن کی جانب کسی عملی اقدام کا یہ واحد حقیقی امکان ہے۔ مطلب یہ کہ اسرائیل، مصر اور بین الاقوامی برادری کو مل کر مستقل فائر بندی کا کوئی پیکج تشکیل دینا ہو گا۔

ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار لوآئے مَدہون
ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار لوآئے مَدہونتصویر: DW

ایسا کرتے ہوئے حماس کے ان مطالبات پر سنجیدگی کے ساتھ غور کیا جانا چاہیے، جو وہ اسرائیل اور مصر کی جانب سے غزہ پٹی کی دوہری ناکہ بندی کے خاتمے کے لیے کر رہی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ غزہ پٹی میں بسنے والے انسانوں کو کوئی اچھا معاشی اور سیاسی مستقبل دینے کے موضوع کو بھی سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔ حماس کی قیادت کے لیے مکمل طور پر غربت اور ناکہ بندی کی شکار اس ساحلی پٹی میں زندگی گزارنے کے سابقہ معمول کی جانب لوٹ جانا قسطوں میں موت کو قبول کر لینے کے مترادف ہو گا۔ یہ وہ مطالبات ہیں، جن کی تمام فلسطینی باشندے اور صدر محمود عباس بھی حمایت کر رہے ہیں۔

اسرائیل اور حماس سرِدست ایک دوسرے کے خلاف جنگ جاری رکھنے کے خواہاں ہیں لیکن بالآخر اُن کے پاس اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہو گا کہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے پیش کردہ منصوبے میں اس طرح سے ردّ و بدل کیا جائے کہ اُس کے نتیجے میں نہ صرف تمام تر جنگی کارروائیاں فوری طور پر رک جائیں بلکہ امریکا اور یورپی یونین کی جانب سے ایسی ضمانتیں بھی فراہم کی جائیں کہ طَے شُدہ سمجھوتوں کی درحقیقت پاسداری بھی کی جائے گی۔ اس طرح کے اچھے سیاسی مستقبل کے امکانات کے بغیر تشدد بند کروانے کی تمام تر کوششیں بے سُود اور عارضی ثابت ہوں گی۔