1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’غربت کے مارے بھارتی کسان اپنے بچے فروخت کر رہے ہیں‘

کشور مصطفیٰ20 مئی 2015

بھارت کی کسان برادری میں خود کُشی کی شرح تشویش ناک حد تک بڑھ چُکی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ملک کے بیشتر حصوں میں خراب موسم کے سبب فصلوں کو پہنچنے والا غیر معمولی نقصان بنا ہے۔

https://p.dw.com/p/1FTJG
تصویر: Reuters/S. Pamungkas

ریاست مدھیہ پردیش کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق رواں سال خراب موسم کے اعتبار سے بدترین سالوں میں سے ایک ثابت ہوا ہے۔ غیر معمولی موسلادھار بارش اور ژالہ باری کے سبب اس سال 570 ہزار ہیکٹر یا ایک اعشاریہ چار ملین ایکڑ رقبے پر پھیلی گندم اور دیگر فصلیں  تباہ ہو گئی ہیں۔ یہ نقصان کئی دہقانون کی زندگیوں کو بے وقت کر گیا۔ مدھیہ پردیش کی پولیس اور ریوینیو حکام کے مطابق اس سال فروری سے مئی کے ماہ کے دوران اس ریاست میں 40 کاشت کاروں نے خود کُشی کر لی۔

طوفانی بارش اور موسم کی خرابی کا شکار دیگر بھارتی ریاستیں، مثال کے طور پر مہاراشٹر، راجھستان اور بھارتی صوبہ پنجاب بھی ہوا ہے۔ بھارت میں خوراک کے مساوی حق کے لیے سرگرم چند غیر سرکاری ادارے ’رائٹ ٹوُ فوڈ‘ نامی مہم میں شامل ہیں۔ اس مہم کے ایک سرکردہ کارکن سچن جین نے بھی کہا ہے کہ اس سال بھارت کے بیشتر علاقوں میں موسم کی خرابی نے فصلوں کو تباہ کر دیا ہے اور اس کا نقصان سب سے زیادہ کاشت کاروں یا کسانوں کو ہوا ہے۔ مدھیہ پردیش کے وزیر زراعت گوری شنکر بیسن کے بقول، ’صورت حال بہت سنگین ہے، ہم معاملات کی چھان بین کر رہے ہیں اور ضلعی حکام کو احکامات جاری کر دیے گئے ہیں کہ وہ کسانوں کے نقصان کی تلافی کا فوری طور سے بندوبست کریں۔‘

Indien Reisfeld
تصویر: T.Mustafa/AFP/Getty Images

غربت کے سبب بچے فروخت 

مدھیہ پردیش کے حکام نے بتایا ہے کہ اس سال فصلوں کو پہنچنے والے نقصانات کے سبب کاشت کاروں میں غربت اس درجہ بڑھ گئی ہے کہ وہ اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کی بجائے انہیں بیچ رہے ہیں تاکہ وہ اپنے قرضے ادا کر سکیں۔ مدھیہ پردیش کے گاؤں موہنپورا کے ایک کسان سنگھ کو جیسے جیسے فصلوں کی کاشت میں نقصان ہوتا گیا ویسے ویسے اُس پر قرض کا بوجھ بڑھتا گیا۔ آخر کار گزشتہ اگست میں نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ وہ اپنی فیملی کو دو وقت کی روٹی بھی مہیا نہیں کر سکتا تھا، ناچار اُس کے پاس ایک ہی رستہ بچ گیا۔ اُس نے اپنے دو بیٹے ایک گڈریے کے ہاتھوں ایک سال کے لیے مشقت کرنے کے واسطے 35 ہزار روپیے کے عوض بیچ دیے۔ سنگھ نے ایک انٹرویو میں کہا، ’’میں اپنے قرضہ جات ادا نہیں کر سکتا تھا، نہ ہی ضروریات پوری کرنے کے لیے میرے پاس پیسے تھے نہ ہی میرے پاس اتنے وسائل تھے کہ میں نئی فصل اُگا سکتا۔‘‘

سنگھ نے یہ فیصلہ یہ جاننے کے باوجود کیا کہ بچوں کو فروخت کرنا غیر قانونی عمل ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کے معصوم بچوں کا استحصال ہو سکتا ہے اور اُن سے نہایت بہیمانہ صورت حال میں مشقت لی جا سکتی ہے۔

پانچ بچے بچ گئے   

مدھیہ پردیش کی ہاردا ڈسٹرکٹ کے ایک عہدیدار راجنیش شریوستاوا کے مطابق ریاستی حکام نے اپریل کے ماہ میں پانچ بچوں کو جبری مشقت سے بچا لیا تھا۔ ان سب کا تعلق ڈسٹرکٹ ہاردا اور خارگون سے تھا۔ ان پانچ بچوں میں سنگھ کے دو بیٹے بھی شامل تھے جنہیں فروخت کیے جانے کے آٹھ ماہ بعد مشقت کی چکی میں پسنے سے بچا لیا گیا۔ راجنیش شریوستاوا  نے بتایا کہ 11 سالہ آمیت اور 12 سالہ سُمیت گڈریے کے پاس سے بھاگ نکلے اور انہیں ایک مقامی شلٹر میں رکھا گیا۔ حکام کے مطابق یہ دونوں لڑکے شروع میں گھر لوٹنے میں ہچکچا رہے تھے کیونکہ انہیں خوف تھا کہ نہ جانے اُن کے والدین اُن کے ساتھ کیسا سلوک کریں گے؟ تاہم بعد میں وہ اپنے گھر لوٹ گئے اور اب وہ اپنے والدین کے پاس ہیں۔

وزیر زراعت کا کہنا ہے کہ حکومت پوری کوشش کر رہی ہے کہ کسانوں کو جلد از جلد ریلیف یا ازالے کی رقوم فراہم کی جائیں۔ اس سلسلے میں حکومتی اہلکاروں پر کرپشن کے الزامات بھی لگائے گئے ہیں تاہم حکومت اس بارے میں چھان بین کر رہی ہے۔