1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غربت سے فرار کی کوشش لیکن کشتیوں میں گرفتار

عاطف بلوچ27 مئی 2015

انسانوں کے اسمگلر ایسی ناقابل یقین کہانیاں گھڑتے ہیں کہ انہیں سننے والے مجبور و بے کس افراد فوری طور پر غیر قانونی مہاجرت پر تیار ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ تارکین وطن ہیں، جو اپنے ممالک میں غربت کی زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1FXDp
میانمار کے روہنگیا مسلمان بھی ملک سے مہاجرت پر مجبور ہیںتصویر: picture-alliance/EPA/Myanmar Information Ministry

تارکین وطن افراد میں بنگلہ دیش کے چھوٹے اور دور دراز دیہات سے تعلق رکھنے والے ایسے افراد بھی ہیں، جو یومیہ ایک ڈالر سے بھی کم کماتے ہیں۔ انہیں جب کہانیاں سنائی جاتی ہیں کہ ایک مرتبہ ملائیشیا پہنچنے پر ان کی زندگی بدل جائے گی اور مال و دولت کی فراوانی ہو جائے گی تو وہ اپنے ناآسودہ ارمانوں اور خواہشات کی تکمیل کے لیے ان پر یقین کر لیتے ہیں۔ تاہم حقیقیت کچھ اور ہی ہوتی ہے۔

انسانوں کے اسمگلر ایسے افراد کو جھوٹے خواب دکھاتے ہیں کہ ایک وسیع و عریض کشتی میں انہیں بنگلہ دیش سے ملائیشیا پہنچایا جائے گا۔ دوران سفر انہیں انواع و اقسام کے لذیز کھانے ملیں گے اور کشتی کا عملہ ان کے ساتھ انتہائی احترام و عزت کے ساتھ پیش آئے گا۔ انہیں یہ یقین بھی دلایا جاتا ہے کہ ایک ہفتے کے دوران ہی انہیں ملائیشیا پہنچا دیا جائے گا، جہاں انہیں بہت اچھی ملازمتیں فراہم کی جائیں گی۔

ان غریب، بے بس اور خستہ حال افراد کو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ ملائیشیا میں اچھی نوکری ملنے کے بعد وہ نہ صرف اچھے ماحول میں زندگی بسر کرنے کے قابل ہو جائیں گے بلکہ بنگلہ دیش میں اپنے رشتہ داروں کو رقوم بھی بھیج سکیں گے۔ انہیں یہ لالچ بھی دیا جاتا ہے کہ ملائیشیا میں ان کے بچے اچھے اسکولوں میں تعلیم حاصل کر سکیں گے۔

شفیق میا کی کہانی

بنگلہ دیش کا رہائشی شفیق میا بھی اُن افراد میں شامل ہے، جو انسانوں کے اسمگلروں کی طرف سے بیان کردہ ان جھوٹی کہانیوں سے متاثر ہو گیا تھا۔ اس نے امریکی خبر رساں ادارے اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’بچپن سے ہی میرا خواب تھا کہ میں اپنے علاقے میں ایک دو منزلہ مسجد تعمیر کراؤں۔‘‘ کئی ہفتوں تک اسمگلروں کی ایک کشتی پر سفر کرنے کے بعد اسے بنگلہ دیش کے ساحلی علاقے پر اتار دیا گیا تھا۔ اسمگلروں کو رقوم فراہم کرنے کے باوجود بھی وہ کبھی ملائیشیا نہیں پہنچ سکا۔

Fähre mit mehr als 200 Passagieren in Bangladesch gesunken
انسانوں کے اسمگلر ایسے افراد کو جھوٹے خواب دکھاتے ہیں کہ ایک وسیع و عریض کشتی میں انہیں بنگلہ دیش سے ملائیشیا پہنچایا جائے گاتصویر: picture-alliance/dpa

جب تئیس سالہ شفیق نے غیر قانونی طور پر ملائیشیا جانے کی کوشش کی تھی تو وہ بنگلہ دیش میں ایک فیکٹری میں ملازم تھا، جہاں وہ ماہانہ 90 ڈالر کماتا تھا۔ وہ کہتا ہے، ’’انہوں (اسمگلروں) نے مجھے کہا کہ کشتی اتنی بڑٰی ہو گی کہ میں اس میں کرکٹ بھی کھیل سکوں گا۔ مجھے دوران سفر لذیز کھانے میسر ہوں گے۔ لیکن انہوں نے ہمیں کھانے کو کچھ نہ دیا۔ کشتی میں ہم نے جب بھی کچھ کھانے کو مانگا تو انہوں نے ہمیں بری طرح مارا پیٹا۔‘‘ پُرنم آنکھوں سے اپنی روداد بیان کرتے ہوئے شفیق نے مزید کہا کہ یہاں تک کہ اسے کشتی میں کسی سے بات کرنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔

شفیق نے دو ماہ کشتیوں اور گمنام علاقوں میں بسر کیے، جس کے بعد اسے بنگلہ دیش ہی پہنچا دیا گیا۔ وہ بتاتا ہے کہ اسمگلروں سے آزاد کرانے کے لیے اس کے گھر والوں نے چھ سو ڈالر کا تاوان بھی ادا کیا۔

جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں مہاجرت کا بحران حالیہ عرصے کے دوران ہی منظر عام پر آیا ہے۔ اس دوران تمام تر توجہ روہنگیا مسلمانوں پر مرکوز کی جا رہی ہے، جو میانمار میں انتہائی کسمپرسی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ تاہم اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق حالیہ دنوں میں ملائیشیا، انڈونیشیا اور تھائی لینڈ پہنچنے والے تین ہزار تارکین وطن افراد میں نصف سے زائد بنگلہ دیشی باشندے ہیں۔

ایسے افراد کے ملکوں کی حکومتیں بھی ان سے کوئی خاص ہمدردی ظاہر نہیں کرتی ہیں۔ بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ نے ان افراد کو ’نفسیاتی طور پر بیمار‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے افراد کو چاہیے کہ وہ اسمگلروں کو رقوم فراہم کرنے کے بجائے اپنے ملک میں ہی سرمایا کاری کریں۔ لیکن درحقیقت غریب بنگلہ دیشی عوام اتنی بچت نہیں کر سکتے کہ وہ سرمایا کاری کے قابل ہوں سکیں۔

پیشاب پینے پر مجبور

انیس سالہ روبیل حسین نے بھی اپنی کہانی سناتے ہوئے کہا کہ انسانوں کے اسمگلر تارکین وطن کے خواہشمند افراد کے ساتھ کس طرح کا بُرا سلوک روا رکھتے ہیں۔ وہ کہتا ہے، ’’اگر ایک دفعہ آپ پھنس گئے تو پھر بھاگا نہیں جا سکتا۔ پھر آپ کو ان کے ساتھ ہی چلنا ہو گا۔ عمومی طور پر وہ آتشیں اسلحے سے لیس ہوتے ہیں۔‘‘

بنگلہ دیش میں ایک اسٹیل کی فیکٹری میں کام کرنے والے روبیل کو اسمگلروں نے میانمار سے ملحقہ جزیرے ’تیکناف‘ پر رکھا تھا، جہاں اس کے ساتھ بارہ دیگر افراد بھی تھے۔ وہ مزید بتاتا ہے، ’’میں نے وہاں سے بھاگنے کی کوشش کی لیکن پکڑا گیا۔ انہوں نے مجھے مارا پیٹا۔‘‘ روبیل نے بھی بتایا کہ اسے کھانے کو کچھ نہیں دیا جاتا تھا، ’’وہ ہمیں پانی بھی نہیں دیتے تھے، اس لیے ہمیں اپنا پیشاب ہی پینا پڑتا تھا۔‘‘ روبیل نے کہا کہ اسمگلروں کی مار پیٹ کی وجہ سے اس نے دو افراد کو ہلاک ہوتے بھی دیکھا۔

Fähre mit mehr als 200 Passagieren in Bangladesch gesunken
اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق حالیہ دنوں میں ملائیشیا، انڈونیشیا اور تھائی لینڈ پہنچنے والے تین ہزار تارکین وطن افراد میں نصف سے زائد بنگلہ دیشی باشندے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

اس بنگلہ دیشی باشندے نے مزید بتایا کہ آخر کار اسے تھائی لینڈ پہنچا دیا گیا، جہاں پولیس نے اسے گرفتار کر لیا۔ وہ کہتا ہے کہ کہانی یہاں ختم نہ ہوئی بلکہ پولیس نے اسے اسمگلروں کے ایک دوسرے گروہ کو فروخت کر دیا۔ روبیل کے بقول آخر کار وہ ملائیشیا کی سرحد کے قریب پہنچ گیا، لیکن اسمگلروں نے کہا کہ سرحد پر سکیورٹی سخت ہے، اس لیے آگے نہیں جانا ممکن نہیں ہے، ’’وہاں وہاں دو ہفتے انتظار کرنا پڑا۔ کھانے اور پینے کو کچھ نہیں تھا۔ میں نے سوچا کہ میں یہیں مر جاؤں گا۔‘‘

اسی دوران تھائی لینڈ میں اجتماعی قبروں کی دریافت کے نتیجے میں تھائی پولیس نے اسمگلروں کے خلاف کریک ڈاؤن سخت کر دیا تھا۔ اسی آپریشن کے نتیجے میں ان اسمگلروں کو بھی گرفتار کر لیا گیا، جن کی حراست میں روبیل تھا۔ یوں متعلقہ حکام نے تحقیقات کے بعد روبیل اور دیگر افراد کو واپس بنگلہ دیش پہنچا دیا۔