1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عید: خوشیوں کی جگہ غزہ میں اداسی کا راج

امجد علی28 جولائی 2014

مسلم دنیا میں عیدالفطر کا تہوار سال کے سب سے زیادہ خوشی والے دن لے کر آتا ہے لیکن اسرائیل اور حماس کے درمیان تین ہفتے کی لڑائی کے بعد غزہ پٹی میں اس عید پر صرف آنسو، آہیں اور نہ ختم ہونے والی اداسی ہے۔

https://p.dw.com/p/1Ckhx
یہ فلسطینی لڑکا ایک اسرائیلی حملے میں مارے جانے والے فلسطینی حسین ابو ناجہ کا قریبی عزیز ہے اور اُس کی تدفین کے موقع پر نوحہ کناں ہے
یہ فلسطینی لڑکا ایک اسرائیلی حملے میں مارے جانے والے فلسطینی حسین ابو ناجہ کا قریبی عزیز ہے اور اُس کی تدفین کے موقع پر نوحہ کناں ہےتصویر: Reuters/Ibraheem Abu Mustafa

آج اسرائیلی آپریشن کے اکیس ویں روز بھی اسرائیلی ٹینکوں سے برسائے جانے والے گولوں نے دو انسانوں کی جان لے لی۔ فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق پیر اٹھائیس جولائی کو اسرائیلی گولہ باری کے نتیجے میں مارے جانے والے دو افراد میں ایک چار سالہ بچہ بھی شامل ہے اور یہ کہ ان ہلاکتوں کے ساتھ ہی تین ہفتے سے جاری اِس آپریشن میں اب تک مارے جانے والے فلسطینیوں کی تعداد بڑھ کر ایک ہزار سینتیس ہو گئی ہے۔ اب تک 46 اسرائیلی بھی مارے گئے ہیں، جن میں 43 فوجی بھی شامل ہیں۔

مغربی اُردن میں فلسطینی غزہ پٹی کے خلاف اسرائیلی حملے پر احتجاج کر رہے ہیں، اس دوران اسرائیلی سکیورٹی فورسز کی طرف سے پھینکے گئے آنسو گیس کے گولوں کے دھوئیں میں یہ فلسطینی اپنا پرچم بلند کیے کھڑا ہے
مغربی اُردن میں فلسطینی غزہ پٹی کے خلاف اسرائیلی حملے پر احتجاج کر رہے ہیں، اس دوران اسرائیلی سکیورٹی فورسز کی طرف سے پھینکے گئے آنسو گیس کے گولوں کے دھوئیں میں یہ فلسطینی اپنا پرچم بلند کیے کھڑا ہےتصویر: Abbas Momani/AFP/Getty Images

نیوز ایجنسی روئٹرز نے اپنے ایک جائزے میں ایک فلسطینی خاتون ابیر شَمالی کی داستان بیان کی ہے، جس کا بیٹا گزشتہ ہفتے مشرقی غزہ میں ہونے والی بمباری میں مارا گیا تھا۔ شَمالی نے روئٹرز کے ساتھ گفتگو میں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا:’’ایک ماں کیسا محسوس کرے گی، جب وہ عید کے روز اپنی آنکھیں کھولے اور اُسے اپنے پاس اپنا بیٹا نظر نہ آئے؟‘‘

روئٹرز نے لکھا ہے کہ زندہ لوگوں کے ساتھ عید کی خوشیاں منانے کی بجائے ابیرہ شَمالی اپنے بیٹے کی تازہ تازہ بنی ہوئی قبر کے کنارے بیٹھی تھی، غزہ کے اُن بہت سے دوسرے شہریوں کی طرح، جنہوں نے اب تک کی لڑائی میں مارے جانے والے ایک ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے عید کے روز قبرستانوں کا رخ کیا۔

شَمالی نے کہا:’’دنیا ہمیں دیکھ رہی ہے لیکن ہمارے لیے محسوس کچھ نہیں کرتی۔ اُنہوں نے فلسطینیوں کی زندگیاں کیوں ضائع کر دیں؟ وہ ہمارے ساتھ یہ کیوں کر رہے ہیں؟‘‘ شَمالی کا شجائیہ میں واقع گھر بھی بمباری میں تباہ ہو گیا کیونکہ اسرائیلیوں کے خیال میں غزہ کا یہ علاقہ حماس کے گڑھ کی حیثیت رکھتا ہے۔

شمالی غزہ کے ایک بازار میں فلسطینی عید کی خریداری کر رہے ہیں اور اپنی اپنی پسند کے جوتوں کا انتخاب کر رہے ہیں
شمالی غزہ کے ایک بازار میں فلسطینی عید کی خریداری کر رہے ہیں اور اپنی اپنی پسند کے جوتوں کا انتخاب کر رہے ہیںتصویر: picture-alliance/AP Photo

تین ہفتے کی لڑائی کے بعد اب پیر اٹھائیس جولائی کو دونوں جانب سے گولہ باری میں بڑی حد تک کمی دیکھی جا رہی ہے کیونکہ حماس نے عید کے موقع پر چوبیس گھنٹے کی فائر بندی کا اعلان کر دیا ہے۔ اسرائیل نے کہا ہے کہ اب وہ اُسی صورت میں فائر کرے گا، جب اُس پر فائرنگ کی جائے گی۔ اُدھر حماس کا اصرار ہے کہ وہ اسرائیل پر راکٹ برسانا حتمی طور پر تب بند کرے گی جب اسرائیل اور مصر غزہ کی وہ ناکہ بندی ختم کریں گے، جس نے غزہ پٹی کے 1.8 ملین نفوس کے لیے زندگی عذاب بنا کر رکھ دی ہے۔

اُدھر گزشتہ رات نیویارک میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایک ہنگامی اجلاس میں کوئی قرارداد منظور کرنے کی بجائے محض ایک بیان جاری کیا گیا، جس میں ’انسانی بنیادوں پر فوری اور غیر مشروط فائر بندی‘ پر زور دیا گیا اور جس پر اقوام متحدہ میں فلسطینی سفیر ریاض منصور نے مایوسی کا بھی اظہار کیا۔

دریں اثناء راملہ سے ملنے والی خبروں میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی صدر حماس کے ارکان کو شامل کرتے ہوئے ایک ایسا وفد تشمکیل دے رہے ہیں، جو مصری دارالحکومت قاہرہ جائے گا اور حماس اور اسرائیل کے مابین فائر بندی کروانے کی کوششیں کرے گا۔