عسکریت پسندوں کے مشتبہ ٹھکانوں پر پاکستانی فضائی بمباری
24 اپریل 2014فوج کی جانب سے میڈیا کو جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے: ’’آج علی الصبح خیبر ایجنسی میں جنگی جیٹ طیاروں نے دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملے کیے۔‘‘
اس طرح وزیر اعظم نواز شریف کی اُن تمام تر کوششوں کے باوجود یہ آپریشن عمل میں لایا گیا ہے، جن کا مقصد طالبان کے ساتھ مذاکرات کرتے ہوئے ملک میں برسوں سے جاری دہشت گردی کے ساتھ ساتھ اُن باغیانہ سرگرمیوں کو بھی انجام تک پہنچانا ہے، جن کا مقصد اسلام آباد میں جمہوری طور پر منتخب ہونے والی حکومت کا تختہ الٹنا ہے۔
اس پریس ریلیز میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ یہ حملے حال ہی میں پولیس اور عام شہریوں کے خلاف کیے جانے والے اُن حملوں کے ردعمل میں کیے گئے ہیں، جو دارالحکومت اسلام آباد کے ساتھ ساتھ خیبر ایجنسی کے قریب واقع اور بدامنی کی زَد میں آئے ہوئے شہر پشاور میں بھی کیے گئے۔
پشاور میں ایک سینئر فوجی افسر کا کہنا تھا کہ یہ فضائی آپریشن جمعرات کو علی الصبح شروع ہوا اور آخری اطلاعات آنے تک ابھی جاری تھا۔ اس افسر نے مزید بتایا: ’’جَیٹ طیاروں کے بعد پاکستانی فوج کے بری دستوں نے بھی اُس علاقے میں آپریشنز شروع کر دیے ہیں۔‘‘
ایک اور فوجی افسر کا کہنا تھا کہ تازہ آپریشن کے نتیجے میں کم از کم پندرہ عسکریت پسند ہلاک ہو گئے تاہم اس بات کی کسی سرکاری ذریعے سے تصدیق نہیں کی گئی ہے۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے، جو کہ عسکریت پسندوں کے کئی ایک گروپوں کے ایک ڈھیلے ڈھالے اتحاد پر مشتمل ہے، ابھی گزشتہ ہفتے ہی وہ فائر بندی ختم کرنے کا اعلان کیا تھا، جس پر چالیس روز تک عملدرآمد ہوتا رہا تھا۔ تاہم اس فائر بندی کے باوجود حکومت اور طالبان کے درمیان بات چیت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
بدھ 23 اپریل کو بھی حکومت اور طالبان کی مذاکراتی کمیٹیوں نے اسلام آباد میں آپس میں ملاقات کی۔ اس ملاقات میں مذاکرات کے اُس اگلے مرحلے کی راہ ہموار کرنے پر اتفاق کیا گیا، جس کا مقصد ایک ایسی مفاہمت پر پہنچنا بتایا گیا ہے، جو طالبان کو ہتھیار ڈالنے کا قائل کر سکے۔