1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق کے تہذیبی ورثے کو پہنچنے والے نقصانات

کشور مصطفیٰ19 ستمبر 2014

عراق کے آثار قدیمہ کی دولت کا ایک بڑا حصہ عسکریت پسند جہادی گروپ اسلامک اسٹیٹ کے کنٹرول میں ہے۔

https://p.dw.com/p/1DFns
تصویر: DW/Munaf Al-Saidy

الجزیرہ الفراتیہ جسے بالا میسوپوٹیمیا بھی کہا جاتا ہے دریائے دجلہ و فرات کے درمیان واقعے ایک ایسا علاقہ ہے جس پر پانچ ہزار سال سے زیادہ کے عرصے تک متعدد قدیم تہذیبوں نے اپنے نقوش چھوڑے ہیں۔ ان میں اشوریہ، اکدیہ، رومی اور بابل کی تہذیبیں شامل ہیں۔ آج کے مغربی عراق اور مشرقی شام کے علاقے میں ان تہذیبوں کا ثقافتی ورثاء موجود ہے تاہم زمین میں دفن ہے۔ مثال کے طور پر متعدد قدیم شہر، مندر اور محلات ان علاقوں کی زمین کے نیچے دفن ہیں جو عظیم الشان یادگاری فن پاروں سے مالا مال ہیں۔

اب آثار قدیمہ کی اس دولت کا ایک بڑا حصہ عسکریت پسند جہادی گروپ اسلامک اسٹیٹ کے کنٹرول میں ہے۔ انتہا پسندوں نے بہت سے فن پارے اور قدیم فنی مصنوعات کو تباہ کر دیا ہے کیونکہ اُن کے جنونی و جذباتی خیال میں یہ فن پارے کُفر ہ الحاد کی علامت ہیں تاہم آئی ایس کے انتہا پسند ان قدیم تہذیبی آثار قدیمہ سے فائدے بھی حاصل کر رہے ہیں۔ قدیم محلات کے باقیات کو کھدائی کے ذریعے نکال کر وہ اسے عالمی بلیک مارکیٹ میں بہت مہنگے دام بیچ رہے ہیں۔

Museen Irak Amna Suraka Sulaymaniyah
سلیمانیہ کا عجائب گھرتصویر: DW/Munaf Al-Saidy

عراق اور شام کے آثار قدیمہ کے نگران و اہلکار قدیم تہذیبوں کا گہوارہ سمجھے جانے والے اس علاقے سے اس کی پرانی تاریخ کو مٹا دینے کے رجحان سے خبر دار کر رہے ہیں۔ اس علاقے کے سرکاری عجائب گھروں کے نگراں ادارے کے سربراہ قائص حسین راشد کے بقول، عراق میں بلیک مارکٹ کا کاروبار کرنے والے اسلامک اسٹیٹ کے زیر کنٹرول علاقوں میں آ رہے ہیں اور وہاں سے نوادرات نکال کر لے جا رہے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق گزشتہ جون میں جب آئی ایس کے عسکریت پسندوں نے عراق کے شمالی شہر موصل اور صوبے نینوہ کے گرد و نواح کے علاقوں پر چڑھائی کی تھی تب انہوں نے ایک ایسے علاقے کو اپنے قبضہ میں لے لیا تھا جہاں عراق کی رجسٹرڈ آثار قدیمہ کی کُل 12 ہزار سائٹس میں سے ایک ہزار آٹھ سو سائٹس موجود ہیں۔ بعد ازاں انہوں نے ملکی دارالحکومت بغداد کے جنوب کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے آثار قدیمہ کی مزید سائٹس کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔

Museen Irak Baghdadi Museum
عراق کی رجسٹرڈ آثار قدیمہ کی کُل 12 ہزار سائٹس ہیںتصویر: DW/Munaf Al-Saidy

آثار قدیمہ کے محکمے کے مطابق اس وقت عراق کی چار اہم ترین آثار قدیمہ سائٹس آئی ایس کے کنٹرول میں ہیں۔ ان میں نینوہ، دور شاروکین، کال اور آشور شامل ہیں۔ یہ تمام اشوریہ سلطنت کے مختلف ادوار میں دارالحکومت رہ چُکے ہیں۔ اشوریہ حکمران ڈھائی ہزار سال قبل مسیح اُبھرے تھے اور ان کی سلطنت کے عروج کے دور میں بحیرہ روم سے لے کر ایران کے ساحلی علاقوں تک ان کی حکمرانی تھی۔

قائص حسین راشد کے مطابق اسلامک اسٹیٹ کے شدت پسندوں کی طرف سے سب سے زیادہ تصدیق شدہ نقصان قصر کال کو پہنچا ہے۔ یہ وہ محل ہے جہاں سے نویں صدی قبل مسیح میں سلطنت اشوریہ کا بادشاہ آشور ناصیر پال دوم حکمرانی کیا کرتا تھا۔ اس بادشاہ کی فتوحات ، فوجی مہمات اور اُس وقت کے معبودوں کے لیے دی جانے والی قربانیوں کی تصویر کشی کرنے والی مختلف علامات سے آراستہ دیوار جیسی نادر اور قیمتی اشیاء کو نکال لینے کا عمل بہت بڑا تہذیبی نقصان ہے۔