1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق ميں اسلامک اسٹيٹ کے خلاف فضائی کارروائی، فرانس بھی شامل

عاصم سليم19 ستمبر 2014

امريکا کے بعد اب فرانس نے بھی عراق ميں اسلامک اسٹيٹ کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کرنے کا فيصلہ کر ليا ہے۔ دريں اثناء امريکی سينيٹ نے اعتدال پسند شامی باغيوں کو ہتھيار اور تربيت فراہم کرنے سے متعلق منصوبے کی منظوری دے دی ہے۔

https://p.dw.com/p/1DFQ9
تصویر: Reuters

فرانسيسی صدر فرانسوا اولانڈ نے گزشتہ روز اعلان کيا کہ ان کا ملک امريکا کی قيادت ميں عراق ميں اسلامک اسٹيٹ کے خلاف جاری فضائی کارروائی ميں شريک ہو گا۔ پچھلے ہفتے بغداد کا دورہ کرنے والے صدر اولانڈ نے اٹھارہ ستمبر کے روز دارالحکومت پيرس ميں کہا، ’’ميں نے عراقی حکام کی درخواست پر فضائی حملوں ميں تعاون کا فيصلہ کر ليا ہے۔‘‘ البتہ انہوں نے واضح کيا کہ فرانس کی شراکت فضائی حملوں تک ہی محدود رہے گی اور بری فوج ہرگز عراق نہيں بھيجی جائے گی۔ اولانڈ نے صرف عراق ميں فضائی حملوں ميں فرانس کی شرکت کا اعلان کيا اور واضح کيا کہ ان کا ملک شام ميں کسی بھی کارروائی کا حصہ نہيں بنے گا۔

بعد ازاں امريکی صدر باراک اوباما نے فرانس کی طرف سے اسلامک اسٹيٹ کے خلاف کارروائی ميں شرکت کے فيصلے کا خير مقدم کيا۔ وائٹ ہاؤس ميں انہوں نے کہا، ’’ہمارے ايک سب سے پرانے اور قريبی اتحادی ہونے کے ناطے فرانس دہشت گردی کے خاتمے کے ليے ہماری کوششوں ميں پارٹنر ہے اور ہم خوش ہيں کہ ہمارے مشترکہ سکيورٹی خدشات اور اقدار کے ليے امريکی اور فرانسيسی ايک مرتبہ پھر ايک ساتھ کام کريں گے۔‘‘

اولانڈ نے واضح کيا کہ ان کا ملک شام ميں کسی بھی کارروائی کا حصہ نہيں بنے گا
اولانڈ نے واضح کيا کہ ان کا ملک شام ميں کسی بھی کارروائی کا حصہ نہيں بنے گاتصویر: Reuters

ايک اور پيشرفت ميں امريکی سينيٹ نے صدر باراک اوباما کی درخواست پر اعتدال پسند شامی باغيوں کو مسلح کرنے اور انہيں تربيت فراہم کرنے سے متعلق منصوبے کی منظوری دے دی ہے۔ اس منصوبے کے حق ميں 78 جبکہ مخالفت ميں صرف 22 ووٹ ڈالے گئے۔ بعد ازاں ری پبلکن سينيٹر لنڈسے گراہم نے کہا، ’’اسلامک اسٹيٹ کو کچلنے کا ہمارے پاس يہ سب سے اچھا اور آخری موقع ہے تاکہ يہ تنظيم مشرق وسطی ميں تباہی نہ پھيلا سکے۔‘‘

دوسری جانب امريکا کی طرف سے بيرونی ممالک ميں مداخلت کے خلاف نظريات کے حامل ايک اور ری پبلکن سينيٹر رينڈ پال نے اس منصوبے کی مخالفت کی۔ ان کے بقول اگرچہ ظالم جہاديوں سے دفاع لازمی ہے تاہم شامی باغيوں کو مسلح کر کے يہ معاملہ مزيد پيچيدہ نہيں بنانا چاہيے کيونکہ ہتھيار بالآخر جنگجوؤں کے ہی ہاتھ لگ جاتے ہيں۔

امريکی وزير دفاع چک ہيگل نے بتايا ہے کہ قريب پانچ ہزار شامی باغيوں کو ايک سال کی مدت تک سعودی عرب ميں تربيت فراہم کرنے پر قريب پانچ سو ملين ڈالر کے اخراجات آئيں گے۔ انہوں نے قانون سازوں کو مطلع کيا کہ ابتداء ميں باغيوں کو صرف چھوٹے ہتھيار، بنيادی ساز و سامان اور گاڑياں مہيا کی جائيں گی اور پھر اپنی صلاحيت منوانے کے بعد انہيں بھاری اسلحہ فراہم کيا جائے گا۔