1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق: شدت پسندوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کی بڑی کارروائیاں

عاطف توقیر20 اگست 2014

عراقی فورسز سُنی شدت پسندوں کے خلاف بڑی کارروائیوں میں مصروف ہو گئی ہیں۔ منگل کے روز عراقی فورسز نے شیعہ ملیشیا اور قبائلی جنگجوؤں کے ساتھ مل کر تکرت شہر سمیت متعدد مقامات پر شدت پسندوں کے خلاف کارروائیاں کیں۔

https://p.dw.com/p/1CxGj
تصویر: Ahmad Al-Rubaye/AFP/Getty Images

خبر رساں اے ایف پی کے مطابق ایک ایسے موقع پر کہ جب اقوام متحدہ نے داخلی طور پر نقل مکانی کرنے والے ہزاروں عراقی باشندوں کے تحفظ کے لیے بڑے امدادی آپریشن کی تیاریوں کا اعلان کیا ہے، عراقی فورسز نے بھی شدت پسندوں کے خلاف کارروائیوں میں تیزی پیدا کردی ہے۔

نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق امریکی فضائی کارروائیوں اور مغربی ہتھیار ملنے کے بعد عراقی کی وفاقی اور کُرد فورسز کی کارروائیوں میں نمایاں تیزی دیکھی گئی ہے۔ ابھی حال ہی میں کرد فورسز نے عراق کے سب سے بڑے ڈیم پر قابض شدت پسندوں کو مار بھگایا تھا اور اس ڈیم کا کنٹرول دوبارہ حاصل کر لیا تھا۔

بغداد حکومت کے مطابق وفاقی فورسز ملیشیا اور قبائلی جنگجوؤں کے ہمراہ ملک کے شمال، مغرب اور جنوب میں اسلامک اسٹیٹ کے شدت پسندوں کے خلاف بڑی کارروائیاں کر رہی ہیں۔

شدت پسندوں کے خلاف یہ جوابی حملے ایک ایسے وقت میں شروع کیے گئے ہیں جب اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے رواں ہفتے ’پانچ لاکھ‘ کے قریب بے گھر افراد کی مدد کے لیے ایک بڑے آپریشن کا اعلان کیا ہے۔

امریکی صدر باراک اوباما نے موصل ڈیم پر فورسز کے قبضے کو خوش آئند قرار دیا، تاہم بغداد حکومت کو خبردار کیا کہ ’بھیڑیا گھر کے دروازے‘ پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ عراق میں تمام فرقوں اور اقلیتوں کی حامل ایک حکومت کے قیام کی ضرورت ہے۔

واضح رہے کہ رواں برس جون میں اسلامک اسٹیٹ کے عسکریت پسندوں نے سکیورٹی فورسز کو مکمل طور پر شکست دیتے ہوئے عراق کے ایک بڑے علاقے پر قبضہ کر لیا تھا اور ان کی پیش قدمی مسلسل جاری تھی، تاہم یہ پہلا موقع ہے کہ ان کے زیر قبضہ کسی علاقے کا کنٹرول دوبارہ حاصل کیا گیا ہے۔ صدر اوباما نے موصل ڈیم پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے پر عراقی اور کرد فورسز کی تعریف کرتے ہوئے کہا، ’’اس آپریشن سے واضح رہے کہ عراقی اور کرد فورسز مل کر کام کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ’’اگر وہ یوں ہی اپنی مشترکہ کارروائیاں جاری رکھتے ہیں، تو انہیں امریکا کی مکمل حمایت حاصل رہے گی۔‘‘