1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عالمی یوم صحت: پاکستان کی صورتحال

عنبرین فاطمہ/ کراچی7 اپریل 2015

عالمی ادارہ صحت WHO کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ اندازاً 20 لاکھ اموات مضر صحت یا غیرمحفوظ کھانے کے باعث پیدا ہونے والی بیماریوں کے نتیجے میں ہوتی ہیں۔ ان میں زیادہ تر ہلاکتیں بچوں کی ہوتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1F3TD
تصویر: DW

غیر محفوظ کھانوں میں موجود بیکٹیریا، وائرس اور کیڑوں کو مارنے والے کیمیکل مادے ،200 سے زائد بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق 2010 ء میں کھانے پینے سے متعلق صرف بائیس بیماریوں میں تقریباً 582 ملین افراد مبتلا ہوئے۔

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق سیکرٹری جنرل ڈاکٹر قیصر سجاد کے مطابق پاکستان میں مضر صحت کھانے اور پانی کے باعث معدے اور چھوٹی آنت کی سوزش کی بیماری یا Gastroenteritis سب سے زیادہ پائی جاتی ہے، ’’ڈائریا، ہیضہ، ہیپاٹائٹس اے، ای اور ٹائیفائڈ جیسی بیماریاں بھی بہت زیادہ دیکھنے میں آرہی ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ان بیماریوں میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم اس کی وجوہات کی روک تھام پر سنجیدگی سے کام نہیں کر رہے’’۔


پاکستان میں ناقص خوراک کی وجہ سے ہونے والی اموات کے بارے میں کوئی باقاعدہ اعداد وشمار تو دستیاب نہیں ہیں تاہم پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے مطابق محض آلودہ پانی کی وجہ سے سالانہ 30 لاکھ افراد مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ جبکہ لاکھوں افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

Pakistan Schlechte Wasserversorgung in Karachi
آلودہ پانی اور نکاسی آب کا ناقص نظام پاکستان کے عوام کی صحت کی خرابی کی ایک بڑی وجہتصویر: picture-alliance/dpa

ڈاکٹر قیصر سجاد کے مطابق پاکستان میں کھانے کو محفوظ بنانے کا مسئلہ ہمیشہ ہی اہم رہا ہے کیونکہ اس پر یہاں کوئی توجہ نہیں دی جاتی، ’’ملک میں کھانے پینے کی اشیاٗ کے حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ ملاوٹ ہے۔ ملاوٹ سے پاک اشیاء یہاں دستیاب نہیں۔ چاہے وہ بچوں سے متعلق کوئی چیز ہو یا بڑوں کے لیے، ہر چیز میں ملاوٹ کا عنصر پایا جاتا ہے۔''

قیصر سجاد کہتے ہیں کہ ڈاکٹر حضرات لوگوں کو صحتمند رہنے کے لیے سبزیوں کے استعمال کا مشورہ تو دیتے ہیں لیکن دیکھا جائے تو وہ بھی مضر صحت عناصر سے محفوظ نہیں، ’’ یہاں تو جو سبزی اگائی جاتی ہے، اسی کو دیکھ لیا جائے تو کتنے مسائل نظر آتے ہیں کیونکہ یہاں اکثر یہ گندے پانی میں اگائی جاتی ہیں۔ ان کے لیے جو کھاد ڈالی جاتی ہے اس میں انتہائی مضر کیمیائی مادے شامل ہوتے ہیں۔ پھر ان کو بیچنے والا دن بھر اس کو گندے پانی میں ہی تازہ رکھنے کے لیے دھوتا رہتا ہے۔ اسی طرح ادرک لہسن کو تیزاب سے دھویا جاتا ہے۔ اسی طرح کے اور بہت سے عوامل ہیں جو کھانے پینے کی اشیاء کو غیر محفوظ بنانے میں کردار ادا کر رہے ہیں لیکن ان پر کوئی کنٹرول نظر نہیں آتا۔''

آج عالمی یوم صحت کے موقع پراقوام متحدہ کے ادارہ برائے صحت کی جانب سے پانچ ایسے آسان طریقوں سے لوگوں کو آگاہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس پر عمل کرتے ہوئے اس بات کو کسی حد تک یقینی بنایا جا سکتا ہے کہ ان کے اور ان کے خاندان تک پہنچنے والی غذا محفوظ ہے۔۔

Nordpakistan nach dem Erdbeben
پاکستان کے گاؤں میں کھانے پکانے کا بندوبست اب بھی نہایت پسماندہ ہےتصویر: Sandra Petersmann

۱۔ کھانے کی اشیاٰ کی صفائی کا خیال رکھا جائے۔

۲۔ کچے اور پکے ہوئے کھانوں کو بلکل علیحدہ رکھا جائے۔

۳۔ کھانے، خصوصاً گوشت کو اچھی طرح سے پکایا جائے۔

۴۔ کھانے کو صحیح درجہ حرارت میں رکھا جائے۔

۵۔ صاف پانی کا استعمال کیا جائے۔

ڈاکٹر قیصر کے مطابق ضرورت اس بات کی ہے کہ ارباب اختیار اور عوام خاص طور سے جو کھانے پینے کی اشیاٰ کی پیداوار سے لے کر انہیں عام آدمی کی پلیٹ تک پہنچانے کے ذمہ دار ہیں، وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ عوام تک جو غذا پہنچ رہی ہے وہ صحت کے لیے مضر نہیں ہو گی۔ اور اس کے لیے ایک دن منانا کافی نہیں بلکہ مستقل کوشش کی ضرورت ہے۔