1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عالمی طاقتیں اور ایران جوہری مذاکرات کی ڈیڈلائن میں توسیع کے لیے سرگرداں

عاطف توقیر24 نومبر 2014

ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جاری جوہری مذاکرات کے لیے طے شدہ ڈیڈلائن کے اختتام سے 24 گھنٹے قبل فریقین اس ڈیڈلائن میں توسیع پر بات چیت میں مصروف ہیں۔

https://p.dw.com/p/1Dryc
تصویر: J. Klamar/AFP/Getty Images

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق فریقین کے درمیان موجود واضح اختلافات کی وجہ سے اب تک کسی حتمی معاہدے پر اتفاق رائے نہیں ہو پایا ہے اور وقت کی تنگی کی وجہ سے اب اس بات پر غور کیا جا رہا ہے کہ کسی طرح طے شدہ ڈیڈلائن میں توسیع کر کے گفت و شنید کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل رکن ممالک امریکا، روس، برطانیہ، چین اور فرانس پلس جرمنی کے درمیان اس پیچیدہ موضوع پر مذاکرات کا سلسلہ اتوار کے روز بھی جاری رہا۔ واضح رہے کہ ان مذاکرات کے ذریعے ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام کا معاملہ حل کرنے کے لیے طے شدہ ڈیڈلائن پیر کو اختتام پذیر ہونے کو ہے۔

ان مذاکرات کا مقصد ایران کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری کی صلاحیت سے دور رکھنا ہے جب کہ ایران اس سلسلے میں کسی حتمی معاہدے کے ذریعے خود پر عائد سخت ترین عالمی پابندیوں میں نرمی چاہتا ہے۔

مغربی ممالک کو شبہ ہے کہ ایران جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں مصروف ہے جبکہ ایران ان الزامات کو رد کرتے ہوئے اپنے جوہری پروگرام کو خالصتاﹰ پرامن قرار دیتا آیا ہے۔

Sergej Lawrow und John Kerry (Atomgespräche in Wien)
روسی وزیرخارجہ لاوروف نے بھی ویانا میں جان کیری سے ملاقاات کیتصویر: Reuters/R. Zak

ڈیڈلائن کے اختتام سے ذرا پہلے فریقین کے درمیان مذاکرات میں کسی معاہدے تک پہنچنے کی کوششیں اپنے عروج پر ہیں جبکہ باہمی اختلافات کی وسعت کی وجہ سے یہ ممکن دکھائی نہیں دیتا کہ اس مختصر مدت تک ایران اور عالمی طاقتیں کسی حتمی معاہدے پر اتفاق رائے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اسی واسطے اب اس مدت میں توسیع پر غور کیا جا رہا ہے، تاکہ حتمی معاہدے کے لیے دستیاب وقت میں اضافہ کیا جا سکے۔

امریکی محکمہء خارجہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو نام مغفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ معاہدے تک پہنچنے کے لیے تیز رفتاری سے معاملات کو حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، تاہم اختلافات متعدد ہیں اور وقت قلیل۔

اس عہدیدار کا مزید کہنا تھا، ’اس لیے مدت میں توسیع ایک آپشن ہے، جس پر بات چیت جاری ہے۔ تام اس بات پر حیرت نہیں ہونا چاہیے کہ ہم ایرانی مذاکرات کاروں کے ساتھ متعدد امور پر بات چیت کر رہے ہیں۔‘

ایک ایرانی ذریعے نے بھی اے ایف پی سے بات چیت میں امریکی وزیرخارجہ جان کیری اور ان کے ایرانی ہم منصب جواد ظریف کے درمیان جمعرات سے اب تک چھ ملاقاتوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سلسلے میں اب تک کچھ بھی ٹھوس بات طے نہیں ہوئی ہے۔

دوسری جانب برطانوی وزیرخارجہ فِلِپ ہیمنڈ نے تاہم اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ فریقین پیر کی صبح ایک مرتبہ پھر کوشش کریں گے کہ کچھ اہم معاملات پر اتفاق ہو جائے۔ ’ظاہر ہے اگر ہم اس قابل نہ ہو پائے، تو پھر ہم یہ سوچیں گے کہ اب کیا کرنا چاہیے۔‘

روسی وزیرخارجہ سیرگئی لاوروف نے بھی اتوار کی سہ پہر جواد ظریف اور جان کیری سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں۔ اس کے علاوہ وہ جرمن وزیرخارجہ فرانک والٹر اشٹائن مائر سے بھی ملے۔

مذاکرات میں شرکت کے لیے برطانوی اور فرانسیسی وزرائے خارجہ ویانا پہنچ چکے ہیں جب کہ چینی وزیرخارجہ بھی پیر کے روز ویانا پہنچ رہے ہیں۔

امریکی صدر باراک اوباما نے بھی اتوار کے روز امریکی نشریاتی ادارے اے بی سی نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ ایسی کسی ڈیل سے ایک بہت بڑا عالمی مسئلہ حل ہو سکتا ہے اور اس کے ذریعے ایران اور امریکا ہی کے تعلقات نہیں بلکہ ایران اور دنیا کے درمیان تعلقات کا نیا باب شروع ہو سکتا ہے۔