1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’طيارے کی تباہی کا سبب ممکنہ طور پر بَک ميزائل‘

عاصم سليم19 جولائی 2014

تجزيہ کاروں نے امکان ظاہر کيا ہے کہ ملائيشين ايئر لائنز کی پرواز MH17 کی تباہی کا سبب روسی ساخت کا زمين سے آسمان کی طرف مار کرنے والا ميزائل ہو سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1CfOd

نيوز ايجنسی اے ايف پی کی برطانوی دارالحکومت لندن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق ’بَک‘ ميزائل سسٹم کی مدد سے کسی مسافر طيارے کو گرايا جا سکتا ہے۔ دفاعی ماہرين کے بقول ديگر مقابلتاﹰ کم قوت والے ميزائل سسٹمز کی نسبت ’بَک‘ اتنی اونچائی ميں اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحيت رکھتا ہے۔

’بَک‘ کو 1970ء کی دہائی ميں سابقہ سويت يونين ميں تيار کيا گيا تھا اور اس کا مقصد ہيلی کاپٹروں، ہوائی جہازوں، کروز ميزائلز اور ڈرون طياروں کو نشانہ بنانا تھا۔ يہ ميزائل سسٹم آج کل بھی يوکرائنی اور روسی افواج کے استعمال ميں ہے۔

طيارہ گرائے جانے کے بعد جمعے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس منعقد ہوا
طيارہ گرائے جانے کے بعد جمعے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس منعقد ہواتصویر: Reuters

يہ ميزائل سسٹم کسی ٹرک پر نصب کيا جاتا ہے اور اس ميں 72,000 فٹ کی بلندی تک اڑنے والے اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحيت ہوتی ہے۔ ميزائل آواز کی رفتار سے تين گنا تيز رفتاری سے اپنے ہدف تک پہنچ سکتا ہے اور يہ ستر کلوگرام تک کا بارودی مواد رکھنے کی صلاحيت رکھتا ہے۔ بک ميزائل ہتھيار تيار کرنے والی روسی کمپنی Almaz-Antey ميں تيار کيا جاتا ہے۔ بنيادی طور پر يہ ميزائل دو اقسام کا ہوتا ہے، Buk-M1 اور Buk-M2، جنہيں نيٹو نے بالترتيب SA-11 Gadfy اور SA-17 Grizzly کے نام دے رکھے ہيں۔

اقوام متحدہ ميں امريکی سفير سمانتھا پال نے جمعے کے روز اپنے ايک بيان ميں کہا ہے کہ امکان ہے کہ ملائيشين ايئر لائنز کے طيارے کو SA-11 طرز کے ميزائل سے نشانہ بنايا گيا ہو۔

يہ امر اہم ہے کہ مشرقی يوکرائن کے روس نواز عليحدگی پسند بغاوت سے متاثرہ علاقوں ميں سرگرم باغيوں نے سترہ جولائی کو پيش آنے والے اس واقعے سے کچھ ہی گھنٹے پہلے يہ اعلان کيا تھا کہ انہوں نے متعدد ’بَک‘ ميزائل حاصل کر ليے ہيں۔ بعد ازاں ايسے کئی شواہد بھی سامنے آئے ہيں، جن ميں باغی بذريعہ ٹيلی فون اپنی گفتگو کے دوران اس جہاز کو گرائے جانے کے بارے ميں بات کر رہے ہيں۔ باغی ايسے تمام الزامات کی ترديد کرتے ہيں۔

دريں اثناء امريکی صدر باراک اوباما نے جمعے کے روز کہا ہے کہ يوکرائن کے روس نواز بغاوت سے متاثرہ علاقے ميں مسافر طياروے کا گرايا جانا، مغربی ممالک کے ليے ’اٹھ کھڑے ہونے کی پکار‘ کی مانند ہے تاکہ وہ روس کو يوکرائنی بحران کا ذمہ دار قرار دے سکيں۔ اگرچہ اوباما نے براہ راست طيارے کی تباہی کا الزام ماسکو حکومت پر عائد نہيں کيا تاہم انہوں نے روس پر يہ الزام ضرور لگايا کہ وہ يوکرائنی بحران کو روکنے سے قاصر رہا ہے، جس سبب يہ حادثہ بھی رونما ہوا۔

دوسری جانب حکام کا کہنا ہے کہ سلامتی و تعاون کی يورپی تنظيم OSCE کے معائنہ کاروں کو اس مقام تک رسائی نہيں دی گئی، جہاں ملائيشين ايئر لائنز کا طيارہ گر کر تباہ ہو گيا تھا۔ معائنہ کاروں کے بقول مسلح افراد نے ان کا راستہ روکا، جن کا رويہ بھی کافی منفی تھا۔ OSCE کی پچيس معائنہ کاروں پر مشتمل ايک ٹيم نے گزشتہ روز جائے وقوعہ کا دورہ کيا تھا۔ يہ امر اہم ہے کہ جس مقام پر يہ جہاز گر کر تباہ ہوا، وہ باغيوں کے زير قبضہ ہے اور باغی تحقيقات کے ليے جائے وقوعہ تک رسائی دينے کے ليے رضامندی کا اظہار کر چکے تھے۔

ملائيشين ايئر لائنز کی ہالينڈ کے شہر ايمسٹرڈيم سے ملائيشيا کے دارالحکومت کوالا لمپور جانے والی پرواز MH17 کے ساتھ رابطہ سترہ جولائی کے روز عالمی وقت کے مطابق سہ پہر دو بج کر پندرہ منٹ پر روس اور يوکرائن کی سرحد سے قريب پچاس کلوميٹر کے فاصلے پر واقع ٹمک نامی مقام کے قریب منقطع ہو گيا تھا۔ مسافر طيارہ مشرقی يوکرائن کے ايک گاؤں ہرابووے ميں گرا۔ اس طیارے کو مبینہ طور پر مار گرایا گیا تاہم کييف حکام اور مشرقی يوکرائن کے روس نواز عليحدگی پسندوں، دونوں ہی کی طرف سے کہا گيا ہے کہ وہ اس واقعے ميں ملوث نہيں ہيں۔ جہاز پر کُل 298 افراد سوار تھے۔