طویل خشک سالی میں زندہ رہنے والے پودوں کا تجربہ
10 مارچ 2015طویل خشک سالی محض فصلوں کو تباہ نہیں کر سکتی بلکہ یہ صحرائی خطوں کے کنارے پر بسنے والے انسانوں کو زراعت کے پیشے سے بھی مکمل طور پر محروم کر دیتی ہے۔ اس طرح ان علاقوں میں زندگی بسر کرنے والوں کی روزی روٹی کا ذریعہ تباہ ہو کر رہ جاتا ہے۔
اس صورت حال میں لوگوں کا آخری سہارا بھیڑوں اور بکریوں کو پال کر اسے اپنا ذریعہ معاش بنانا ہی رہ جاتا ہے تاہم ان مویشیوں کو پالنے کے لیے بھی انہیں چارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ خشک سالی کے شکار علاقوں میں ان جانوروں کو جہاں کہیں کوئی باقی سبز چیز نظر آتی ہے وہ اُسے کھا جاتے ہیں۔ اس سب کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایسے علاقوں کی زمین مکمل طور پر تباہ یا بنجر ہو کر رہ جاتی ہے۔
زمین کا بہتر استعمال
دنیا کے ایسے خطے جہاں پانی کی کمی یا خشک سالی پائی جاتی ہے وہاں کے رہائشیوں کو گو ناگوں مسائل کا سامنا رہتا ہے جس کے سبب وہ اپنے علاقوں کو چھوڑ کر کسی قریبی زرخیز علاقے کی طرف نقل مکانی کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سے دنیا کی ایک بڑی اراضی کے برباد ہو جانے کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔ زراعت کے شعبے کے ماہرین ان مسائل کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ خشک سالی کی شکار زمین کا کوئی نا کوئی استعمال نکالا جا سکے اور ایسے علاقوں کے مکینوں کے لیے زمین چھوڑ کر جانے کی بجائے اپنی ہی زمین پر کسی ذریعے سے معاش کا بندوبست کرنے کا موقع فراہم ہو سکے۔
اس سلسلے میں زراعتی ماہرین اور محققین کا کہنا ہے کہ خشک سالی کی شکار زمین پر ایسی فصلوں کی کاشت کی جانی چاہیے جو خشک سالی کے دور کو برداشت کرنے کی اہل ہوں اور اس کے گزر جانے کے بعد کچھ فائدہ دے سکیں۔
جرمن شہر بون کی یونیورسٹی کے کاشت کاری کے تحقیقی شعبے کے سربراہ پروفیسر ژینز لیون اس بارے میں کہتے ہیں کہ پودوں کی ایسی بہت سی اقسام ہیں جو انتہائی خُشکی میں بھی خراب نہیں ہوتیں تاہم یہ ہمیشہ مفید ثابت نہیں ہوتے ہیں۔ پروفیسر ژینز کے بقول،"دنیا بھر میں پائے جانے والے پودوں کی بہت سی مختلف اقسام ہوتی ہیں۔ پھل دار، دیر تک زندہ رہنے والے، جلد مرجھا جانے والے یا پھر جنگلی پودے۔ نہایت دلچسپ عمل پودوں کی نئی جینیاتی اقسام کی تلاش ہے۔ خاص طور سے ایسے پودے جو خُشک سالی میں بھی زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔‘‘
پیوند کاری کے ذریعے نئے پودے
پروفیسر ژینز لیون اور دنیا بھر میں زراعتی تحقیقات کے شعبے سے منسلک اُن کے دیگر ساتھی پودوں کی کراس پلانٹیشن یا پیوند کاری کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ ایسے نئے اقسام کے پودے پیدا ہونے لگیں جو خشک سالی کے دور کا مقابلہ کرنے کی صالاحیت رکھتے ہوں اور جن کی صحرائی علاقوں میں شجر کاری کی جا سکے اور یہ خراب نہ ہوں۔ اس تجربے میں ماہرین ایک جنگلی اور یک عام پودے کی کراس پلانٹیشن یا کرکے اس کی کاشت صحرائی علاقوں میں کرنا چاہتے ہیں تاکہ خشک سالی کے علاقے میں بھی کچھ ہریالی نظر آئے۔ دوسرے یہ کہ اس طرح کی کراس پلانٹیشن سے ممکنہ طور پر ایسے پودے نکل سکتے ہیں جو خُشک سالی کا موسم ختم ہونے کے بعد بارآور ثابت ہو سکیں۔
پروفیسر ژینز کہتے ہیں،"اگر ہم اس تجربے میں کامیاب ہو گئے اور ہم نے اس مکینیزم کے تحت ان پودوں کا ڈی این اے DNA مارکر یا ڈی این اے اقسام کا مطالعہ کر لیا تو ہم مستقبل میں مختلف پودوں کی خصوصیات اور اُن کے مابین ربط کے مطابق ان کی شجر کاری کریں گے۔ یہ صحرائی علاقوں میں خشک سالی کو بھی جھیلنے کے اہل ہوں گے اور خشک سالی کا دور گزرنے کے بعد یہ شاید ثمر بار بھی ثابت ہو سکیں گے"۔