طاہرالقادری کا دھرنا کیوں ختم ہوا؟
22 اکتوبر 2014دریں اثناء اسلام آباد شہر کی دیکھ بھال کے ذمے دار ادارے سی ڈی اے کے درجنوں اہلکاروں نے شاہراہ دستور اور اس کے ارد گرد گرین بیلٹس پر صفائی کا آغاز کر دیا ہے۔
اسلام آباد کے ریڈ زون سے طاہرالقادری کی واپسی حکومت کے لیے یقیناً باعث اطمینان ہے اور غالباً اسی لیے وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے وزراء کو ہدایت کی ہے کہ وہ دھرنا ختم ہونے پر کسی بھی طرح کے تنقیدی بیانات سے گریز کریں۔ اسی دوران حکومت اور طاہر القادری دونوں ہی نے سختی کے ساتھ اس تاثر کو رد کیا ہے کہ عوامی تحریک نے دھرنے کا خاتمہ کسی مبینہ ڈیل کے نتیجے میں کیا ہے۔
اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے علاوہ عوامی نیشنل پارٹی اور حکومت کی اتحادی جماعتوں نے طاہر القادری کی جانب سے دھرنا ختم کرنے کے اعلان کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر سعید غنی کے مطابق یہ ثابت ہو گیا کہ پاکستان کے عوام کسی بھی غیر جمہوری طریقے سے منتخب حکومت گرانے کے حق میں نہیں۔ انہوں نے کہا کہ طاہر القادری کا دھرنوں کو ملک بھر میں پھیلانے کا اعلان بھی قابل عمل نہیں ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا:’’جس طرح یہ دھرنا ان کو مجبوراً ختم کرنا پڑا، اسی طرح وہ اپنے جلسے بھی تاحیات جاری نہیں رکھ سکتے۔ ایک وقت آئے گا کہ ان کو اپنے جلسے بھی ختم کرنے پڑیں گے۔ تو ہر احتجاج کا جو مقصد ہوتا ہے، وہ یہ نہیں کہ آپ سو فیصد اہداف حاصل کریں بلکہ آپ کو جو زیادہ سے زیادہ مل رہا ہو، اس پر مان جانا چاہیے۔ ان دونوں حضرات نے یہ نہیں مانا اور یہ اس بات پر تلے رہیں گے کہ سارے مطالبات منوانے ہیں تو نہ ان کے مطالبات مانے جائیں گے اور نہ ہی وہ جسلے جاری رکھ سکیں گے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ طاہر القادری کے ریڈ زون سے چلے جانے کے بعد اب عمران خان کو بھی اپنی اصل سیاسی حیثیت کا اندازہ ہو گا۔ سعید غنی کے مطابق پہلے عمران خان کا رات کو شروع ہونے والا خطاب سننے والوں میں قریب ہی خیمہ زن عوامی تحریک کے کارکنوں کی بھی بڑی تعداد بھی شامل ہوتی تھی، جو اب نہیں ہو گی۔
طاہر القادری کے دھرنا ختم کرنے کے اعلان کے بعد ان کے اور عمران خان کے مستقبل میں سیاسی اتحاد سے متعلق بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ سینیئر صحافی اور تجزیہ کار مبشر زیدی کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال میں طاہر القادری اور عمران خان دونوں ہی حکومت پر اپنا دباؤ برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ وہ دونوں اپنے سیاسی راستے جدا نہ کریں:’’طاہر القادری کو بھی بہر حال اپنا آپ سیاسی طور پر زندہ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ تحریک انصاف کے ساتھ جڑے رہیں۔ آپ نے دیکھا کہ انہوں نے بنیادی طور پر پیروی کی ہے، جو عمران خان کر رہے تھے۔ اس کا یہی مقصد ہے کہ وہ ابھی بھی عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں اور مستقبل میں جو دھرنے اور جلسے ہوں گے، ان میں وہ عمران خان کا ساتھ دیں گے۔‘‘
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طاہر القادری کے ریڈ زون سے چلے جانے کے بعد عمران خان کے لیے سب سے بڑا چیلنج وہاں پر اپنے حامیوں کی بڑی تعداد میں موجودگی کو یقینی بنانا ہے، دوسری صورت میں انہیں حکومتی وزراء اور دیگر مخالف سیاسی جماعتوں کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا ہو گا۔