1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے معاملے پر خاموشی

شکوررحیم/ اسلام آباد17 اپریل 2014

قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے حوالے سے کیا طے کیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1BkHI
تصویر: Aamir Qureshi/AFP/Getty Images

کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے جنگ بندی میں مزید توسیع سے انکارکے ایک دن بعد قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس جمعرات کو وزیر اعظم میاں نواز شریف کی سربراہی میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں دفاع، خزانہ، داخلہ، اطلاعات و نشریات کے وزراء کے علاوہ وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی و امور خارجہ، چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی، چیف آف آرمی سٹاف، چیف آف نیول سٹاف اور اعلی سول و فوجی افسران نے شرکت کی۔

اجلاس کے بعد جاری ہونے والے ایک سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی نے ملک کے لئے طویل المدت مضمرات کے حامل داخلہ اور خارجہ سلامتی کے متعدد امور پر تبادلہ خیال کیا۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے داخلہ سلامتی کی صورتحال کے بارے میں بریفنگ دی۔ جبکہ کمیٹی نے طالبان سے مذاکرات سمیت بلوچستان اور مغربی سرحدوں کی صورت حال پر بھی تبادلہ خیال کیا۔

بیان کے مطابق کمیٹی نے عوام کی خوشحالی کی لیے ملک کو تصادم کی بجائے مواقع کے راستے پر گامزن کرنے کی توثیق کی ہے۔ خیال رہے کہ ملک کی اعلٰی سول اور فوجی قیادت کا یہ اجلاس ایک ایسے موقع پر منعقد ہوا ہے جب یہ تاثر مضبوط ہورہا تھا کہ فوجی اور سول قیادت کے درمیان چند امور پر اختلافات کی خلیج بڑھ رہی ہے۔

Pakistan Nawaz Sharif und Asif Zardari in Islamabad
ایک روز قبل وزیر اعظم نواز شریف نے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری سے بھی ملاقات کی تھیتصویر: picture-alliance/ dpa

اس ضمن میں ایک روز قبل وزیر اعظم نواز شریف کی پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کو بھی اہم قرار دیا جا رہاتھا۔ حکمران مسلم لیگ(ن)کے راہنما سینیٹر مشاہد اللہ کا کہنا ہے کہ فوجی اور سول قیادت نے ثابت کر دیا کہ وہ اہم ملکی امور کے بارے میں ایک ہی صفحے پر ہیں۔ انہوں نے کہا ،"یہ حکومت جو ہے یہ فوج کی بھی حکومت ہے کوئی الگ الگ حکومتیں تو نہیں ہیں نا کہ اس طرح کی بات کی جائے میں سمجھتا ہوں کہ سب ایک ہیں ۔ اس ملک سے محبت کرتے ہیں ۔ ملک کے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں۔ مسائل کو حل کرنے میں کبھی کبھار سوچ کا فرق آجاتا ہے تو کسی طرح سے اس کو ُپر بھی کر لیا جاتا ہے"۔

بعض حلقوں کے مطابق سابق فوجی صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے اور طالبان قیدیوں کی رہائی کے معاملے پر فوجی اور سول قیادت میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔ تاہم قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے حوالے سے کیا طے کیا گیا ہے۔

ادھر حکومت کی اتحادی ایک جماعت جمیعت علماء اسلام کے سینیٹر حمداللہ کا کہان ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات سمیت تمام امور پر سیاسی جماعتوں کو بھی اعتماد میں لے۔ انہوں نے کہا،"تمام جماعتوں کو اعتماد میں لینا چاہیے۔ سلامتی پالیسی کے حوالے سے ہو یا ملک کے معاشی استحکام کے حوالے سے ہو اور اسی میں جمہوریت کی بقاء ہے۔ پارلیمنٹ کی بقاء ہے اور آئین کی بالادستی ہے اگر آپ نہیں کریں گے سب کو اعتماد میں نہیں لیں گے تو میرے خیال میں یہ دراڑیں موجود رہیں گی"۔

دریں اثناء وزیر اعظم نواز شریف نے طالبان سے مذاکرات ، داخلہ سلامتی اور اقتصادی صورتحال پر کابینہ ارکان کو اعتماد میں لینے کے لئے کل بروز جمعہ وفاقی کابینہ کا اجلاس طلب کر لیا ہے۔