صحراؤں میں سے راستہ بناتا دریائے نیل
گوئٹے انسٹیٹیوٹ سوڈان کی تیار کردہ ایک نمائش آج کل جرمن شہر ڈاساؤ کے وفاقی دفتر ماحولیات میں دکھائی جا رہی ہے۔ تین ابھرتے ہوئے فوٹوگرافرز نے کیمرے سے اتری ہوئی اپنی ان تصاویر میں نیل کے ساتھ ساتھ آباد بستیاں دکھائی ہیں۔
’رشید‘ نامی شہر میں آباد ایک خاندان
یہ فوٹوگرافرز سیاسی تنازعات کی نہیں بلکہ عام انسانوں کی روزمرہ زندگی کی تصویر کشی کرنا چاہتے تھے۔ محمود یاقوت نے ’رشید‘ میں بسنے والے انسانوں کو موضوع بنایا ہے، جہاں زیادہ تر خاندان زراعت پیشہ ہیں۔ نیل ڈیلٹا کی زرخیز زمینیں ان انسانوں کے لیے بہت بڑی نعمت ہیں۔
نیل پر مچھلی کے فارم
مصری شہر ’رشید‘ کے پاس دنیا کا یہ طویل ترین دریا بحیرہٴ روم میں جا کر گرتا ہے۔ اس علاقے میں بہت سے انسانوں کا روزگار ماہی گیری سے وابستہ ہے۔ لکڑی سے بنائے گئے فِش فارم پانی پر تیرتے دکھائی دیتے ہیں، جن پر چھوٹی چھوٹی جھگیاں بنی ہوتی ہیں۔ ہر جھگی میں ایک بستر اور ایک چھوٹے سے کچن کی جگہ ہوتی ہے۔ خاندان کا ایک فرد اس متحرک فارم کی نگرانی کرتا ہے۔
شہر کی زندگی
’رشید‘ میں ماضی اور حال آپس میں ملتے ہیں۔ قرونِ وُسطیٰ سے اس بندرگاہی شہر کو ایک اہم تجارتی مرکز کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ یہاں تاریخ اور کاروبار ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ لوگوں کی زندگی بہت سادہ ہے۔ مصری شہر ’رشید‘ اپنے باسیوں کی خوش اخلاقی اور فراخ دلی کے لیے مشہور ہے۔
خواتین کا کردار
’رشید‘ میں خواتین عام طور پر گھر پر رہتی ہیں، امورِ خانہ داری انجام دیتی ہیں اور بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔ وہ روایتی تندوروں میں روٹی بھی بناتی ہیں۔ یہ خواتین بازار میں سبزیاں اور گھر میں تیار کیا گیا پنیر بھی فروخت کرتی ہیں۔ غربت کے باوجود یہاں کے باسی بہت مہمان نواز ہیں۔ بانٹنا اُن کی زندگی کے فلسفے میں شامل ہے۔
تخلیق کی لیبارٹری
ان فوٹوگرافرز کو 2013ء کے موسمِ گرما میں ایک ورکشاپ کے لیے گوئٹے انسٹیٹیوٹ آنے کی دعوت دی گئی تھی۔ اب یہ نمائش پہلی مرتبہ جرمن سرزمین پر دکھائی جا رہی ہے۔ سوڈان کے الصادق محمد کو برتن بنانے کے فن سے بہت دلچسپی ہے۔ نیل کے ساتھ ساتھ مٹی سے برتن بنانے کی روایت قدیم زمانے سے چلی آ رہی ہے۔ الصادق کے خیال میں اس فن میں فنکار اور اُس کی تخلیق میں بہت گہرا ربط ہوتا ہے۔
زندہ دریائے نیل
دریائے نیل کے ساتھ ساتھ صدیوں سے برتن بنانے کی روایت چلی آ رہی ہے۔ اسوان ڈیم بننے تک یہ حال تھا کہ دریا میں آنے والا سیلاب اپنے ساتھ زرخیز مٹی لاتا تھا۔ خاص طور پر آج کل کے حالات میں پانی بہت ہی قیمتی چیز بن چکا ہے۔ یہ دریا مصری سرزمین کے لیے حیات بخش عنصر کی حیثیت رکھتا ہے اور مسلسل تبدیلی کی بھی علامت ہے۔ لوگ آبی وسیلے کے ساتھ ساتھ نقل و حمل اور توانائی کے لیے بھی نیل پر انحصار کرتے ہیں۔
انتہائی قدیم روایات
مٹی سے بنے برتن کارآمد بھی ہوتے ہیں اور خوبصورت بھی۔ صدیوں کے سفر میں اس فن میں نئی نئی اشکال وجود میں آئی ہیں۔ آج کل نُوبیا کے علاقے میں بننے والے برتن دنیا بھر کے عجائب گھروں اور نمائشوں کی زینت بنتے ہیں اور سوڈان کے اس علاقے کی ثقافت اور تاریخ کی وہ داستانیں سناتے ہیں، جن پر نیل کی بہت گہری چھاپ موجود ہے۔
نیلے دریا کے کنارے عاجزی کے سبق
بروک زیرائی مینگستُو کے ہمراہ ہم نیل کے اس سفر میں ایتھوپیا میں داخل ہو جاتے ہیں۔ ایتھوپیا میں جنم لینے والے اس نیلے دریا کے ساتھ ساتھ انتہائی ابتدائی دور کی مسیحیت سے جڑی انجیل کے طالب علموں کی ایک کمیونٹی ملتی ہے۔ روحانی مرتبہ حاصل کرنے اور لوگوں کے مسیحا بننے کے لیے یہ طلبہ معاشرے سے کٹ کر زندگی گزارتے ہیں۔ یہ طلبہ اپنی تنہائی کا راستہ خود چنتے ہیں اور ان کی تعلیم چَودہ برسوں میں مکمل ہوتی ہے۔
انجیل کے طالب علم
وقتاً فوقتاً یہ طالب علم اپنی تنہائی سے نکل کر قریبی دیہات کا رخ کرتے ہیں تاکہ اپنے لیے خوراک مانگ کر لا سکیں۔ گداگری اُنہیں عاجزی سکھاتی ہے۔ اِن طالب علموں کا عقیدہ ہے کہ عاجزی روحانی قوت کا سرچشمہ بنتی ہے۔
یکتائی اور ابدیت
دریائے نیل کا ایتھوپیا میں واقع حصہ یکتائی اور ابدیت کی علامت ہے۔ شہروں سے دور یہ نیلا دریا وسعت اور سکون کا احساس دیتا ہے۔ گوئٹے انسٹیٹیوٹ خرطوم کی ورکشاپ کے شرکاء اپنے اپنے ملکوں کے سفر پر گئے، جن میں بہت سے آج کل جنگوں اور تنازعات کی زَد میں ہیں۔ متاثر کن تصاویر کی یہ نمائش ستائیس مئی تک جاری رہے گی۔