1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صحت کے لیے نقصان دہ اسبیسٹاس، ایشیا میں بڑی صنعت

افسر اعوان12 اگست 2014

یہ بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں ہونے والی ایک کانفرنس ہے جس میں شریک بزنس ایگزیکٹوز کا کہنا تھا کہ وہ جس صنعت سے تعلق رکھتے ہیں وہ غریبوں کو چھتوں، دیواروں اور پائپوں کی فراہمی کے ذریعے زندگیاں بچا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/1Ct2l
تصویر: Getty Images

اور وہ صنعت یا پیداوار کیا ہے؟ ایسبسٹاس، ایک ایسا مادہ جو دنیا کے زیادہ تر ترقی یافتہ ممالک میں ممنوع قرار دیا جا چکا ہے۔ تاہم ترقی پذیر ممالک میں اس سے متعلق صنعت آج بھی ترقی کر رہی ہے۔ صرف بھارت میں ہی جو دنیا بھر میں ایسبسٹاس کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے، یہ صنعت دو ارب ڈالرز حجم رکھتی ہے اور تین لاکھ لوگوں کو ملازمت فراہم کیے ہوئے ہے۔

انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، طبی ماہرین اور 50 سے زائد ممالک اس بات کے حامی ہیں کہ اس معدنی مادے پر پابندی عائد کی جانی چاہیے۔ کیونکہ ایسبیسٹاس کے ریشے پھیپھڑوں میں چپک جاتے ہیں اور بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے اندازوں کے مطابق ہر برس قریب ایک لاکھ افراد کام کی جگہ پر ایسبسٹاس سے متاثر ہو کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔

لیکن بھارت میں ہونے والی ایسبسٹاس کانفرنس میں اس صنعت سے وابستہ ایگزیکٹوز کا کہنا ہے کہ اس مادے سے جڑے خطرات کو ضرورت سے زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس کے بجائے وہ اپنے اس کاروبار کو ایک سماجی خدمت قرار دیتے ہیں جو بھارت میں بسنے والے ایسے لاکھوں غریب افراد کے لیے ہے جو گارے اور گھانس پھونس سے بنی جھونپڑیوں میں رہتے ہیں۔

Symbolbild Armut in Indien
بھارت میں آج بھی ہزاروں افراد باقاعدہ گھروں سے محروم ہیںتصویر: Fotolia/OlegD

انڈیا کی ’ایسبسٹاس سیمنٹ پراڈکٹس مینوفیکچررز ایسوسی ایشن‘ کے ایک ڈائریکٹر ابھایا شنکر کے مطابق، ’’ہم یہاں صرف اپنا کاروبار چلانے کے لیے نہیں ہیں، بلکہ اپنی قوم کی خدمت کرنے کے لیے ہیں۔‘‘

دیرپا اور حرارت کے خلاف مزاحمت رکھنے والا ایسبسٹاس مغربی ممالک میں کبھی پسندیدہ ترین انسولیشن میٹریل کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسبسٹاس کسی بھی شکل میں سانس کے ذریعے پھیپھڑوں میں جانے سے یہ 20 سے 40 برس بعد تک انتہائی جان لیوا بیماریوں کا باعث بنتی ہے جن میں پھیپھڑوں کا کینسر بھی شامل ہے۔

یورپی یونین سمیت درجنوں ممالک جن میں جاپان اور ارجنٹائن بھی شامل ہیں ایسبسٹاس پر مکمل پابندی عائد کر چکے ہیں جبکہ دیگر بہت سے ممالک جن میں امریکا بھی شامل ہے اس کے استعمال کو بہت حد تک کم کر چکے ہیں۔

تاہم ایسبسٹاس کی حامی لابی کا کہنا ہے کہ مغرب نے غیر ذمہ داری سے اس مادے کو استعمال کیا اور اس کے خطرات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔ اس لابی کے مطابق ایسبسٹاس کی چھ میں سے ایک قسم کریزوٹائل chrysotile یا سفید ایسبسٹاس استعمال کرنے میں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ سال 1900ء کے بعد سے 95 فیصد وائٹ ایسبسٹاس ہی دنیا بھر میں استعمال کی گئی ہے۔