1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’صحافیوں پر حملے، ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے‘

امتیاز احمد28 مئی 2015

اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے دنیا بھر کے صحافیوں پر بڑھتے ہوئے حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے تمام عوامل کا خاتمہ کیا جائے، جن کی وجہ سے ملزمان سزاؤں سے بچ جاتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1FXw2
04.2015 DW Akademie Media Freedom Navigator Kamera kaputt

اقوام متحدہ میں ایک متفقہ قرار داد منظور کرتے ہوئے دنیا بھر میں قید یا اغوا شدہ صحافیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس قرار داد کا مسودہ رواں ماہ سکیورٹی کونسل کے موجودہ صدر ملک لتھوانیا کی طرف سے تیار کیا گیا تھا اور اسے آج لتھوانیا کے وزیر خارجہ نے پیش کیا۔ اس موقع پر ڈینئیل پرل کی بیوہ ماریئین پرل بھی وہاں موجود تھیں۔ وال اسٹریٹ جنرل کے صحافی ڈینئیل پرل سن دو ہزار دو میں پاکستانی شہر کراچی میں مارے گئے تھے۔

اس موقع پر بتایا گیا کہ گزشتہ برس وہ ملزمان، جنہوں نے دنیا بھر میں صحافیوں پر حملے کیے، کسی نہ کسی طرح سے سزاؤں سے بچ نکلنے میں کامیاب رہے اور صحافیوں پر حملوں کے معاملے میں بہت ہی کم ایسے واقعات سامنے آئے، جن میں ملزمان کو عدالتوں کے سامنے پیش کیا گیا۔

ماریئین پرل کا کہنا تھا، ’’اب ہم نشانہ ہیں۔ عسکریت پسند اب صحافیوں کو خبروں کی ترسیل کے لیے استعمال نہیں کرتے بلکہ اب وہ صحافیوں کے اغوا کی وارداتیں کر کہ عالمی خبروں کا مرکز بننا چاہتے ہیں۔ وہ ہمیں اب دشمن کا جاسوس اور جنگجو سمجھتے ہیں۔ یہ ہماری روزمرہ زندگی کا معمول بن چکا ہے۔‘‘

دنیا بھر میں صحافیوں کے حالات پر نظر رکھنے والی تنظیم ’رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ کے مطابق گزشتہ برس چھیاسٹھ صحافیوں کو ہلاک کیا گیا تھا جبکہ رواں برس کے آغاز پر ہی یہ تعداد پچیس تک پہنچ چکی ہے۔ گزشتہ ایک عشرے کے دوران سات سو سے زائد صحافیوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔ اسی طرح اس موقع پر سب سے زیادہ آواز داعش کی ان کارروائیوں کے خلاف اٹھائی گئی، جن میں متعدد مغربی صحافیوں کے سر قلم کر دیے گئے تھے۔ صحافیوں کے لیے اب بھی سب سے خطرناک ملک شام ہے، جہاں سن دو ہزار گیارہ کے بعد سے اب تک اسّی صحافی ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس سلسلے میں دوسرے نمبر پر عراق اور تیسرے نمبر پر یوکرائن آتا ہے۔

اقوام متحدہ کے ڈپٹی سکریٹری جنرل جین الیسن نے کونسل کو یاد دلایا کہ سب سے زیادہ خطرات کا سامنا مقامی نامہ نگاروں کو کرنا پڑتا ہے، ’’ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جنگ زدہ علاقوں میں سب سے زیادہ یعنی پچانوے فیصد ہلاکتیں مقامی صحافیوں کی ہوتی ہیں اور ان کو مناسب میڈیا کوریج بھی نہیں ملتی۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ ایسے معاملات میں واضح طور پر مغربی صحافیوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔