1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’’شہید ہونا چاہتا ہوں‘‘ : اسلامک اسٹیٹ کے عسکریت پسند کا عدالت میں بیان

عاطف توقیر31 اکتوبر 2014

کریشنِک بی دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ کا وہ پہلا رکن ہے، جسے ایک جرمن عدالت میں مقدمے کا سامنا ہے۔ وہ استغاثہ سے تعاون کر کے اپنے لیے کم سخت سزا کا متمنی ہے۔

https://p.dw.com/p/1Df08
تصویر: picture-alliance/dpa/Boris Roessler

 فرینکفرٹ کی اعلی علاقائی عدالت میں اس کے بیان نے کم سزا کے حصول امید کو قدرے نقصان پہنچایا ہے۔ عدالت میں اپنے بیان میں اس نے کہا کہ وہ اب بھی ’شہادت کی موت‘ مرنا چاہتا ہے۔ جرمنی میں ملزم کے ذاتی کوائف کے تحفظ کے قانون کے تحت اس کا پورا نام ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔

بیس سالہ ملزم جب گزشتہ روز کمرہء عدالت میں داخل ہوا، تو اس نے ایک بھاری سویٹر اور اس پر ایک سرخ رنگ کا جاڑوں کا کوٹ پہن رکھا تھا۔ جج نے اس دیکھ کر کہا، ’کیا تمہیں سردی لگ رہی ہے؟ تم اپنا کوٹ اتار سکتے ہو، ہم تمہیں کچھ نہیں کہیں گے۔‘

مغربی جرمن علاقے باڈ ہومبورگ سے تعلق رکھنے والے کریشنِک بی نے جج کے اس جملے کے بعد اپنا کوٹ اتار اور اپنا بیان شروع کیا، جس میں گزشتہ برس جولائی میں اپنے شام کے سفر اور اسلامک اسٹیٹ میں شمولیت کا احوال بتایا۔

Terrorprozess gegen Syrien-Rückkehrer in Frankfurt (IS)
ملزم نے عدالت کو اس دہشت گرد گروہ کے بارے میں تفصیلات مہیا کر کے اپنی سزا میں کمی چاہی ہےتصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler

عدالتی بیان میں اس کا کہنا تھا کہ اس نے اس سلسلے میں عسکری تربیت حاصل کی، تاہم میدان جنگ میں کوئی خاص سرگرمی نہ دکھا سکا، جس کی وجہ سے وہ مایوس ہو کر گزشتہ برس دسمبر میں جرمنی واپس لوٹ آیا۔ اس نے اصرار کیا کہ اس تمام عرصے میں اس نے ایک گولی بھی فائر نہیں کی اور عموماﹰ اس کو اگلی صفوں کے بجائے اسلامک اسٹیٹ کے عسکریت پسندوں نے پیچھے ہی رکھا۔

کریشنِک کوگزشتہ برس فرینکفرٹ پہنچنے پر ہوائی اڈے پر ہی حراست میں لے لیا گیا تھا۔ جرمنی میں کسی غیرملکی دہشت گرد گروہ کی رکنیت کی سزا دس برس قید کی ہے، تاہم جج اور استغاثہ کا کہنا ہے کہ اگر ملزم اس گروہ سے متعلق معلومات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ تفصیل سے یہ بتائے کہ وہ کیوں کر ان جہادیوں کا حصہ بنا، تو اس کی سزا میں کمی کی جا سکتی ہے۔ تاہم تفتیش کے دوران اس نے ایک انتہائی خوف ناک جملہ ادا کیا، ’اصل میں میں شہادت کی موت مرنا چاہتا ہوں۔‘

اس موقع پر اس کے اپنے وکیل مُوتلو گیونال نے خوف زدہ انداز سے اسے دیکھا۔ اس سے قبل گزشتہ سماعت کے موقع پر ملزم کے وکیل نے عدالت کو ایک تحریری بیان پڑھ کر سنایا تھا، تاہم عدالت نے اس معلومات کو ناکافی قرار دیا تھا۔ عدالت میں کریشنِک کا بیان اس بابت کوئی روشنی نہ ڈال سکا کہ وہ شدت پسندی کی جانب کیوں مائل ہوا اور وہ شام کیسے پہنچا؟ اس کا صرف یہ کہنا تھا کہ وہ سب سے پہلے استبنول گیا اور اس کے بعد بس کے ذریعے وہ دیگر چھ جہادیوں کے ساتھ شام میں داخل ہوا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس کے اس سفر کا مقصد بشار الاسد کے حکومت کے خلاف اپنے ’بھائیوں اور بہنوں‘ کی مدد کرنا تھا اور وہ اب بھی یہ سمجھتا ہے کہ یہ ایک درست عمل تھا۔

تاہم اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ شام میں متعدد عسکریت پسند گروہ آپس ہی میں جھڑپوں میں مصروف ہیں، جس پر اسے دکھ ہوا۔ اس کے علاوہ اس نے یہ بھی بتایا کہ زیادہ تر محاذوں پر عرب اور چیچن جنگجو آگے آگے ہوتے ہیں اور وہ مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں پر زیادہ اعتبار نہیں کرتے۔