1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شمالی وزیرستان میں نیا ڈرون حملہ، آٹھ مشتبہ جنگجو ہلاک

عصمت جبیں26 نومبر 2014

پاکستان کے سرحدی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں ایک نئے ڈرون حملے میں آج بدھ کے روز کم از کم آٹھ مشتبہ عسکریت پسند مارے گئے۔ افغان سرحد کے قریب اس مبینہ امریکی فضائی حملے کی سکیورٹی ذرائع نے بھی تصدیق کر دی ہے۔

https://p.dw.com/p/1Dtua
تصویر: picture alliance/dpa

پاکستان کے سرحدی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں ایک نئے ڈرون حملے میں آج بدھ کے روز کم از کم آٹھ مشتبہ عسکریت پسند مارے گئے۔ افغان سرحد کے قریب پاکستانی قبائلی علاقے میں اس مبینہ امریکی فضائی حملے کی سکیورٹی ذرائع نے بھی تصدیق کر دی ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بغیر پائلٹ کے پرواز کرنے والے ایک امریکی ڈرون طیارے سے یہ میزائل حملہ شمالی وزیرستان کے صدر مقام میران شاہ سے 60 کلومیٹر جنوب کی طرف واقع کُند سر نامی گاؤں کے ایک کمپاؤنڈ پر کیا گیا۔

Taliban-Kämpfer
ایک نئے ڈرون حملے میں آج کم از کم چار مشتبہ عسکریت پسند مارے گئےتصویر: AP

ایک مقامی سکیورٹی اہلکار نے ٹیلی فون پر اے ایف پی کو بتایا کہ عسکریت پسندوں کی اس پناہ گاہ کو ڈٰرون طیارے سے فائر کیے گئے دو میزائلوں سے نشانہ بنایا گیا۔ اس اہلکار کے مطابق اس حملے میں ’کم از کم آٹھ عسکریت پسند ہلاک اور دو دیگر زخمی ہوئے‘۔

اس پاکستانی اہلکار نے اپنا نام خفیہ رکھے جانے کی شرط پر اے ایف پی کے ساتھ بات چیت میں مزید کہا، ’’میزائل لگنے سے عسکریت پسندوں کی یہ مشتبہ پناہ گاہ پوری طرح تباہ ہو گئی۔ ہو سکتا ہے کہ اس حملے میں ایسے دیگر شدت پسند بھی ہلاک ہوئے ہوں جن کی لاشیں ابھی ملبے کے نیچے دبی ہوئی ہوں۔‘‘

افغانستان کے ساتھ سرحد کے قریب لیکن اسلام آباد میں وفاقی حکومت کے زیر انتظام اس پاکستانی قبائلی علاقے میں ملکی خفیہ اداروں کے ذرائع نے بھی اس نئے ڈرون حملے کی تصدیق کر دی ہے۔ ان ذرائع کے بقول اس علاقے میں سرگرم شدت پسندوں کی اکثریت کا تعلق گل بہادر نامی عسکریت رہنما اور انتہا پسندوں کے حقانی نیٹ ورک سے ہے۔

پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں سکیورٹی اہلکاروں نے بھی اے ایف پی کے ساتھ گفتگو میں اس ڈرون حملے کی تصدیق کی اور کہا کہ شمالی وزیرستان میں سرگرم عسکریت پسندوں کا تعلق حقانی نیٹ ورک سے بھی ہے اور دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ میں شامل غیر ملکی عناصر سے بھی۔ ان غیر ملکی عسکریت پسندوں میں ازبک اور ایغور نسل کے جنگجو بھی شامل ہیں۔

Pakistan/ Nord-Waziristan
فوج کے دعووں کے مطابق آپریشن ’ضرب عضب‘ میں اب تک ایک ہزار سے زائد شدت پسند مارے جا چکے ہیں جب کہ کم از کم 86 پاکستانی فوجی بھی ہلاک ہو چکے ہیں۔تصویر: picture-alliance/dpa

شمالی وزیرستان افغانستان کے ساتھ پاکستانی سرحد کے قریب ان سات قبائلی علاقوں میں سے ایک ہے، جہاں پاکستانی حکومت کی عمل داری نہ ہونے کے برابر ہے اور جنہیں قبائلی ایجنسیاں کہا جاتا ہے۔ ان نیم خود مختار علاقوں میں گزشتہ کئی برسوں سے عسکریت پسندوں نے اپنے مضبوط ٹھکانے قائم کر رکھے ہیں۔ ان علاقوں کو القاعدہ اور دیگر عسکریت پسند تنظیموں کی طرف سے اپنے جنگجوؤں کی عسکری تربیت اور پناہ گاہوں کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ان علاقوں تک صحافیوں کی رسائی نہ ہونے کے برابر ہے اور حکومتی اور فوجی دعووں کی آزادانہ تصدیق بھی ممکن نہیں۔

امریکی حکومت کئی برسوں تک اسلام آباد پر زور دیتی رہی ہے کہ وہ ان قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانے تباہ کرے۔ پاکستانی فوج نے اس سال جون میں شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف ایک بڑے مسلح آپریشن کا آغاز کیا تھا۔ فوج کے دعووں کے مطابق اس آپریشن میں اب تک ایک ہزار سے زائد شدت پسند مارے جا چکے ہیں جب کہ کم از کم 86 پاکستانی فوجی بھی ہلاک ہو چکے ہیں۔

پاکستانی فوج نے اس آپریشن ’ضرب عضب‘ کا آغاز ملک کے جنوبی شہر اور تجارتی مرکز کراچی کے ہوائی اڈے پر عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد کیا تھا۔ کراچی ایئر پورٹ پر اس حملے میں متعدد افراد ہلاک ہوئے تھے جب کہ اسی حملے کے بعد پاکستانی حکومت نے مقامی طالبان کے ساتھ مذاکرات کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کی اجازت دے دی تھی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید