1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شمالی وزیرستان، 31 عسکریت پسند ہلاک

امجد علی16 ستمبر 2014

پاکستانی فوج نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ افغانستان کے ساتھ ملنے والے پاکستانی سرحدی علاقے میں فضائی حملوں اور زمینی جھڑپوں میں 31 عسکریت پسند مارے گئے ہیں۔ ان جھڑپوں میں تین فوجی بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

https://p.dw.com/p/1DDPN
پاکستانی فوج نے شمالی وزیرستان میں اپنے بڑے آپریشن کا آغاز اس سال پندرہ جون کو کیا تھا
پاکستانی فوج نے شمالی وزیرستان میں اپنے بڑے آپریشن کا آغاز اس سال پندرہ جون کو کیا تھاتصویر: picture-alliance/AP

پاکستانی فوج کی جانب سے منگل سولہ ستمبر کو جاری کیے جانے والے اس بیان میں مزید بتایا گیا ہے کہ یہ فضائی حملے قبائلی ضلع خیبر کی وادیٴ تیراہ میں کیے گئے، جن میں ’بیس دہشت گرد ہلاک ہو گئے جبکہ عسکریت پسندوں کے تین ٹھکانے اور اسلحے کے دو ڈپو بھی تباہ کر دیے گئے‘۔

فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی سے باتیں کرتے ہوئے ایک سکیورٹی اہلکار نے بتایا کہ جیٹ طیاروں نے ضلع خیبر کے علاقے توردارا کوکی خیل پر بمباری کی، جہاں طالبان اور ایک اور کالعدم عسکریت پسند گروپ لشکرِ اسلام کے جنگجوؤں نے پناہ لے رکھی تھی۔

اس آپریشن کے نتیجے میں دَس لاکھ شہریوں کو گھر بار چھوڑ کر ملک کے دیگر مقامات میں پناہ لینا پڑی ہے
اس آپریشن کے نتیجے میں دَس لاکھ شہریوں کو گھر بار چھوڑ کر ملک کے دیگر مقامات میں پناہ لینا پڑی ہےتصویر: Danish Baber

دوسری جانب حکام نے بتایا ہے کہ ایک اور حملہ شمالی وزیرستان میں ایک فوجی چوکی پر ہوا۔ حکام کا کہنا ہے کہ یہ حملہ سرحد پار سے آئے ہوئے عسکریت پسندوں نے کیا۔

فوج کی طرف سے جاری کردہ تازہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اسپن وام میں ڈانڈی کچھ کی چوکی پر منگل کو علی الصبح ہونے والے حملے کو پسپا کر دیا گیا: ’’گیارہ دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا اور ایک کو پکڑ لیا گیا۔ تین دہشت گردوں کی لاشیں بھی سکیورٹی فورسز کے پاس ہیں۔‘‘

اس آپریشن کے نتیجے میں تقریباً ایک ہزار عسکریت پسندوں کے ساتھ ساتھ 80 سے زیادہ فوجی بھی مارے جا چکے ہیں
اس آپریشن کے نتیجے میں تقریباً ایک ہزار عسکریت پسندوں کے ساتھ ساتھ 80 سے زیادہ فوجی بھی مارے جا چکے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

واضح رہے کہ پاکستانی فوج نے شمالی وزیرستان میں اپنے بڑے آپریشن کا آغاز اس سال پندرہ جون کو کیا تھا۔ اس آپریشن کا مقصد اس علاقے کو طالبان اور دیگر باغی گروپوں سے پاک کرنا تھا۔ اب تک اس آپریشن کے نتیجے میں تقریباً ایک ہزار عسکریت پسندوں کے ساتھ ساتھ 80 سے زیادہ فوجی بھی مارے جا چکے ہیں۔

کسی آزاد ذریعے سے مرنے والوں کی تعداد اور شناخت کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے تاہم مقامی آبادی کا کہنا ہے کہ فضائی حملوں میں اب تک بہت سے عام شہری بھی ہلاک ہو چکے ہیں۔

پاکستان اور افغانستان کی طرف سے اکثر ایک دوسرے پر عسکریت پسندوں کے سرحد پار حملوں کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔ تازہ حملے کے بعد بھی اسلام آباد اور کابل حکومتوں کے درمیان تعلقات مزید خراب ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں