1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شاندار خیالات: یورپی موجد ایوارڈ

امتیاز احمد19 جون 2014

ایسے افراد کی ایجادات اور خیالات کو، جو ہماری زندگی کو مزید بہتر بنا سکتے ہیں، ہر سال یورپی پیٹنٹ دفتر ’موجد ایوارڈ‘ سے نوازتا ہے۔ اس مرتبہ لائف ٹائم اچیومنٹ کا ایوارڈ پلاسٹک کی گَٹی بنانے والے آرٹور فِشر کو ملا ہے۔

https://p.dw.com/p/1CLyt
تصویر: imago

یورپ میں اس ’موجد ایوارڈ‘ کے لیے تین سو افراد کو نامزد کیا گیا تھا۔ فائنل کے لیے جیوری کی طرف سے پندرہ افراد کو چنا گیا اور آخر کار چھ تحقیقی ٹیموں کو اس ایوارڈ سے نوازا گیا۔ یہ ایوارڈز صنعت، تحقیق، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں (ایس ایم یو)، غیر یورپی ممالک اور لائف ٹائم اچیومنٹ کی گیٹیگریز میں دیے گئے۔ جبکہ ایک گیٹیگری کا نام عوامی ایوارڈ تھا۔

اس تقریب کا سب سے جذباتی منظر وہ ہوتا ہے، جب لائف ٹائم اچیومنٹ کا ایوارڈ دیا جاتا ہے۔ رواں برس یہ ایوارڈ جرمنی میں ایجادات کے بادشاہ کہلانے والے آرٹور فِشر کو دیا گیا ہے۔ انہوں نے 1000 سے زائد ایجادات کو پیٹینٹ کروایا ہے اور ان کا شمار کامیاب ترین موجدوں میں ہوتا ہے۔

آرٹور فشر کی کامیاب ترین ایجاد 1958ء میں پلاسٹک کی گَٹی تھی۔ اس ایجاد کا نام بھی موجد کے نام پر رکھا گیا اور اسے ’فشر پلگ‘ کہا جاتا ہے۔ پلاسٹک کی اس گَٹی نے تعمیراتی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا۔ یہ گٹی کسی سطح میں سوراخ کر کے داخل کر دی جاتی ہے جس کے بعد اس میں لگائے جانے والے پیچ یا کِیل کی گرفت انتہائی مضبوط ہو جاتی ہے۔ اسی کی وجہ سے فشر خاندان کے کاروبار کی بنیاد پڑی۔ آج اس کے 43 ذیلی ادارے ہیں اور ان کی سالانہ آمدنی 630 ملین یورو ہے۔

اسی طرح تپ دق کے خلاف مؤثر دوائی بنانے کی وجہ سے بیلجیئم کے کوین آندریس اور ان کے فرانسیسی ساتھی جیروم گیلی مونٹ کو ایوارڈ دیا گیا۔ یہ دونوں گزشتہ چالیس برسوں میں پہلی مرتبہ تپ دق کے خلاف ایک مؤثر دوا بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

اس مرتبہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کی کیٹیگری میں فاتح ڈنمارک رہا ہے۔ پیٹر ہولم جینسن اور ان کے ساتھی ڈانیلے کیلر کو یہ انعام بہترین ایکواپورِین جھلیوں والا واٹر فلٹر بنانے کی وجہ سے ملا ہے۔ اس ایجاد کا مقصد کم قیمت اور کم توانائی کے ذریعے صاف پانی کی تیاری ہے۔

کرسٹوفر تومازو کی ایجاد کی وجہ سے جینیاتی بیماریوں کا قبل از وقت پتہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس برطانوی سائنسدان کو تحقیق کے شعبے میں ’تیز ڈی این اے ٹیسٹ‘ کی ایجاد پر انعام دیا گیا ہے۔ اس ایجاد کی وجہ سے جینیاتی نقائص کا لیبارٹری کے طویل ٹیسٹوں کے بغیر ہی پتہ چلایا جا سکتا ہے۔ یہ انتہائی اہم ایجاد USB فلیش ڈرائیو کی طرح لگتی ہے لیکن یہ مائیکرو چپ اس سے کچھ زیادہ ہے۔ یہ انسانی جینوم کے راز کھولتی ہے۔ اس کے ذریعے حاصل ہونے والے نتائج کو ٹیسٹ کے بیس منٹ بعد کمپیوٹر پر پڑھا جا سکتا ہے۔ اس طریقے سے ڈی این اے ٹیسٹ انتہائی کم لاگت میں ہوتا ہے اور ان ممالک کے لیے اہم ہے جہاں جدید لیبارٹریز کی سہولیات کم ہیں۔

بہترین غیر یورپی محقق کا ایوارڈ اس مرتبہ امریکی سائنسدان چارلس ڈبلیو ہَل کو ان کے تھری ڈی پرنٹر کی ایجاد کی وجہ سے دیا گیا ہے۔ یہ ایجاد مینوفیکچرنگ کی صنعت میں انقلاب برپا کر دینے والی ٹیکنالوجی ہے۔