1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سیوریج کے پانی سے حرارت ’ری سائیکل‘

افسر اعوان25 جون 2014

گھریلو استعمال کی مشینوں، مختلف کاروباروں اور فیکٹریوں سے بڑی مقدار میں گرم پانی نالیوں میں بہا دیا جاتا ہے۔ یہ صرف پانی کا ہی زیاں نہیں ہے بلکہ ایک اور اہم اور قیمتی وسیلے زیاں بھی ہے اور وہ ہے حرارت یعنی ہِیٹ انرجی۔

https://p.dw.com/p/1CPTf
تصویر: Dieter Nagl/AFP/Getty Images

تاہم آسٹریا کے شہر امسٹیٹن Amstetten میں صورتحال ایسی نہیں ہے۔ جہاں مقامی توانائی فراہم کرنے والی کمپنی نے ایک پائلٹ پراجیکٹ شروع کیا ہے۔ یہ کمپنی توانائی کی اس شکل کو ایک ایسی جگہ سے ری سائیکل کر رہی ہے جہاں سے عام طور پر لوگ سوچتے ہی نہیں۔ اور یہ ہی نکاسی شدہ یا سیوریج کا پانی۔

اس طرح سے حاصل ہونے والی حرارت کو مختلف عمارات کے 4000 مربع میٹر رقبے کو گرم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ گرمیوں میں اتنے ہی رقبے کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے۔ اس طرح نہ صرف اتنے رقبے کو ٹھنڈا یا گرم رکھنے کے لیے گیس کے استعمال میں بچت ہو گئی ہے بلکہ اس طرح فضا میں ضرر رساں گیسوں کے اخراج میں کمی واقع ہو گئی ہے۔

امسٹیٹن میں توانائی فراہم کرنے والی کمپنی اشٹڈ ورکے امسٹیٹن Stadtwerke Amstetten کے سربراہ رابرٹ سِمر کے مطابق، ’’قریب ہر ہفتے ہی کوئی نہ کوئی وفد ہمارے اس نظام کو دیکھنے کے لیے یہاں آتا ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’اگلے ہفتے فرانس سے ایک وفد آ رہا ہے اور اس سے اگلے ہفتے اسپین سے۔۔۔ہمارے پاس اس مقصد کے لیے لوگ کم ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمیں اپنے اسٹاف میں اضافہ کرنا پڑے گا جو اس طرح کے مندوبین کے معاملات کو سنبھال سکے۔‘‘

رابرٹ سِمر کے بقول، ’’ہم نے 240،000 یورو کی سرمایہ کاری کی ہے۔ یہ نظام قریب 11 برسوں میں اپنی لاگت پر اٹھنے والی قیمت کو پورا کر دے گا‘‘
رابرٹ سِمر کے بقول، ’’ہم نے 240،000 یورو کی سرمایہ کاری کی ہے۔ یہ نظام قریب 11 برسوں میں اپنی لاگت پر اٹھنے والی قیمت کو پورا کر دے گا‘‘تصویر: Dieter Nagl/AFP/Getty Images

قریب 42 میٹر چوڑی ایک صحن نما جگہ پر جہاں سیوریج کے پانی کا درجہ حرارت 27 ڈگری سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے، اس کمپنی نے ٹیکنالوجی کے حوالے ایک انتہائی جدید نظام نصب کیا ہے۔

سیوریج کے پانی کے قریب سے گزرنے والے پائپوں کے اندر موجود پانی کو خاص آلات کی مدد سے جنہیں ’ہیٹ ایکسچینجرز‘ کا نام دیا جاتا ہے سیورج کے پانی سے حرارت کو جزب کر کے گرم کیا جاتا ہے۔ اس گرم پانی کو ایک قریبی ہیڈکوارٹرز میں لے جاتا ہے جہاں موجود ’ہیٹ پمپ‘ مرکزی ہیٹنگ سسٹم کو چلاتا ہے۔

رابرٹ سِمر کے مطابق، ’’جو پانی ہیڈکوارٹرز میں پمپ کیا جاتا ہے وہ بالکل صاف ہوتا ہے۔ اور سیوریج کے پانی کے اندر لگایا گیا نظام بھی خودکار طریقے سے صاف ہوتا رہتا ہے۔‘‘

اس نظام میں استعمال ہونے والے ہیٹ پمپ کے لیے بجلی کا استعمال کیا جاتا ہے جس پر سالانہ 6500 یورو کی لاگت آتی ہے۔ لیکن اس کے باجود گیس کے ذریعے ہیٹنگ اور کولنگ کے نظام کی نسبت اس نظام کے باعث مجوعی بچت کافی زیادہ ہے۔

رابرٹ سِمر کے بقول، ’’ہم نے 240،000 یورو کی سرمایہ کاری کی ہے۔ یہ نظام قریب 11 برسوں میں اپنی لاگت پر اٹھنے والی قیمت کو پورا کر دے گا۔ تاہم کسی بھی دیگر قابل تجدید توانائی پر مبنی نظام مثلاﹰ سولر انرجی وغیرہ سے کے ذریعے بھی لاگت پوری ہونے میں اس سے زیادہ وقت ہی لگے گا۔‘‘