1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سینیٹ کے انتخابی طریقہٴ کار میں ترمیم، اجلاس بے نتیجہ رہا

شکور رحیم، اسلام آباد27 فروری 2015

پاکستان میں ایوان بالا (سینیٹ) کے انتخابی طریقہٴ کارمیں تبدیلی کے لیے آئین میں بائیسویں ترمیم پر مشاورت کے لیے وزیر اعظم کی سربراہی میں ہونے والا پارلیمانی جماعتوں کا اجلاس بے نتیجہ ختم ہو گیا۔

https://p.dw.com/p/1Ej2J
اسلام آباد میں قومی اسمبلی کی عمارت
اسلام آباد میں قومی اسمبلی کی عمارتتصویر: AP

جمعے کے روز اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس میں پاکستان پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، عوامی نیشنل پارٹی، ایم کیو ایم، جمعیت علماء اسلام (ف)، جماعت اسلامی اور دیگر پارلیمانی جماعتوں کے رہنما شریک ہوئے۔ اجلاس کےشرکاء سے بات چیت کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ پارلیمنٹ کے ایوان بالا کی حیثیت سے سینیٹ ایک مقدس ادارہ ہے اور تمام سیاسی جماعتوں پر لازم ہے کہ وہ اس کے تقدس کے تحفظ اور اس میں اضافہ کرتے ہوئے انتخابی عمل کو مکمل طور پر شفاف بنائیں۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی پارلیمانی جماعتوں کے رہنماﺅں کو قومی اہمیت کے اہم امور پر بات چیت کے لیے مدعو کیا جاتا تھا۔ وزیراعظم نے کہا کہ "ملک میں تمام جمہوری قوتوں کے لیے یہ معاملہ باعث تشویش ہے کہ پارلیمنٹیرینز کے ووٹوں کی خرید و فروخت کا کاروبار جاری ہے"۔ انہوں نے سیاسی جماعتوں پر زور دیا کہ وہ ہارس ٹریڈنگ کا خاتمہ کریں اور سینیٹ کو بدعنوانی سے بچائیں تاکہ ملک میں جمہوریت فروغ پا سکے۔

عوامی نیشنل پارٹی کے راہنما غلام احمد بلور نے کہا کہ سینیٹ انتخابات میں پیسے کا بے دریغ غیر قانونی استعمال ہوتا ہے لیکن اس کو روکنے کے لیے اب وقت مناسب نہیں
عوامی نیشنل پارٹی کے راہنما غلام احمد بلور نے کہا کہ سینیٹ انتخابات میں پیسے کا بے دریغ غیر قانونی استعمال ہوتا ہے لیکن اس کو روکنے کے لیے اب وقت مناسب نہیںتصویر: Reuters

اجلاس میں حزب اختلاف کی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے علاوہ حکومت کی اتحادی جمعیت علماء اسلام (ف) نے ہارس ٹریڈنگ کے خاتمے کے لیے آئین میں ترمیم کرنے کی مخالفت کی۔ تاہم حکومت کی سب سے شدید مخالف سمجھی جانے والی جماعت تحریک انصاف سمیت دیگر تمام جماعتوں نے سینیٹ انتخابات میں خفیہ رائے شماری کے بجائے شوآف ہینڈز کے ذریعے ارکان کے انتخاب کے لیے بائیسویں آئینی ترمیم لانے کی حمایت کی۔

اجلاس کے اختتام پر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ صرف دو جماعتوں کی خواہش پر آئین میں ترمیم نہیں کی جا سکتی۔ انہوں نے کہا کہ "پوری صوبائی اسمبلیوں کے ارکان اور پوری قومی اسمبلی کے اراکین کو یہ کہنا کہ بکاؤ مال ہیں، ضمیر فروش ہیں، یہ کسی طور پر بھی برداشت نہیں۔ ہاں چند کالی بھیڑیں ہیں تو پارٹیاں ان کا راستہ روکیں، ان کو ٹکٹ دینے سے پہلے سوچیں۔"

عوامی نیشنل پارٹی کے راہنما غلام احمد بلور کا کہنا تھا کہ سینیٹ انتخابات میں پیسے کا بے دریغ غیر قانونی استعمال ہوتا ہے لیکن اس کو روکنے کے لیے اب وقت مناسب نہیں۔ انہوں نےکہا:’’اب بھی لوگوں نے پروگرام بنایا ہوا ہے۔ جن لوگوں نے ووٹ خریدا ہوا ہے، وہ کہتے ہیں کہ ترمیم ہونی چاہیے۔ جن کو ووٹ بیچے جانے کا خطرہ ہے، وہ کہتے ہیں، ترمیم کر لیں۔ ہم نے حکومت سے کہا ہے کہ آپ لیٹ ہو گئے ہیں۔ آپ الیکشن سے پہلے کہاں تھے؟ اب تو تاریخ کا اعلان ہو چکا ہے، یہ وقت ترمیم کرنے کا نہیں۔‘‘

تحریک انصاف اور کئی دیگر جماعتوں نے سینیٹ انتخابات میں خفیہ رائے شماری کے بجائے شوآف ہینڈ کے ذریعے ارکان کے انتخاب کے لیے بائیسویں آئینی ترمیم لانے کی حمایت کی ہے
تحریک انصاف اور کئی دیگر جماعتوں نے سینیٹ انتخابات میں خفیہ رائے شماری کے بجائے شوآف ہینڈ کے ذریعے ارکان کے انتخاب کے لیے بائیسویں آئینی ترمیم لانے کی حمایت کی ہےتصویر: AP

دوسری جانب بطور احتجاج قومی اسمبلی سے مسعتفی ہونے والی جماعت تحریک انصاف کے راہنما ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ وہ ووٹوں کی خرید و فروخت روکنے کے لیے حکومتی اقدامات کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ "ہم کہتے ہیں کہ سیکرٹ بیلٹنگ کی بجائے شو آف ہینڈ کا طریقہٴ کار بالکل صحیح ہے۔" خیال رہے کہ مختلف جماعتوں کے سینیٹروں کے ریٹائر ہونے کے بعد خالی ہونے والی سینیٹ کی 52 نشستوں کے لیے پانچ مارچ کو انتخابات منعقد ہوں گے۔

آئینی طریقہٴ کار کے مطابق صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے اراکین ان انتخابات میں خفیہ رائے شماری کے ذریعے حق رائے دہی کا ستعمال کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں ہر بار امیر اور با اثر افراد کی طرف سے سینیٹر بننے کے لیے اراکین کی خرید و فروخت کا الزام لگتا ہے۔ اس بار بھی ایسی ہی اطلاعات آنے کے بعد کے پی کے میں حکمران تحریک انصاف کی جانب سے خفیہ رائے شماری کے طریقہٴ کار کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا گیا، جس پر حکمران مسلم لیگ (ن) نے بھی اس سے اتفاق کیا۔

پارلیمانی جماعتوں کے اجلاس میں شریک ایک راہنما نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ تحریک انصاف کو اپنے صوبائی اراکین کے ووٹ بیچنے کا اتنا خدشہ ہے کہ اس نے حکومت کی جانب سے بائیسویں ترمیم سینیٹ انتخابات سے قبل منظور کرانے کی صورت میں دوبارہ قومی اسمبلی میں آنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں