سیلابی نقصانات کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ
15 ستمبر 2014پاکستان میں سیلابی نقصانات کو کم کرنے کی آڑ میں دریاؤں اور نہروں کے حفاظتی بندوں کو توڑنے اور سیلابی نقصانات کا باعث بننے والے حکومتی فیصلوں کی عدالتی تحقیقات کی آوازیں بھی بلند ہونا شروع ہو گئی ہیں۔
ایک ایسے وقت میں جب پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا کہنا ہے کہ اٹھارہ ہزاری کے قریب دریائے چناب کے بند کو طاقتوروں کی دو شوگر ملوں کو بچانے کے لیے توڑے گئے ہیں، دوسری طرف مظفر گڑھ کے بعض شہریوں کی طرف سے بھی کہا جا رہا ہے کہ انتظامیہ نے ایک ٹیکسٹائل مل کو بچانے کے لیئے مظفر گڑھ کے قریب دوآبہ بند کو توڑنے میں تاخیر کی جس کی وجہ سے سیلابی تقصانات میں اضافہ ہوا۔
مظفرگڑھ سے تعلق رکھنے والے اکرم شیخ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انتظامیہ نے ایک طرف دوآبہ بند توڑنے میں مجرمانہ تاخیر کہ دوسری طرف جلد بازی میں غیر ضروری طور پر چک روھاڑی کا بند توڑ دیا گیا جس کا پانی ایک چکر کھا کر پھر آبادیوں کی طرف آ رہا ہے اور لوگوں کی زندگیاں بہت مشکل میں ہیں ان کو امداد بھی نہیں مل رہی ہے۔ ا ن کے مطابق سپریم کورٹ کو حالیہ سیلاب کے نقصانات پر سوموٹو نوٹس لیا چاہیے اور دو ہزار چودہ کے سیلاب کے حوالے سے بھی ایک عدالتی کمیشن بننا چاہیے۔
جھنگ سے تعلق رکھنے والے ایک سماجی کارکن ڈاکٹر عبدالجبار نے بتایا کہ اس بات کی بھی تحقیق ہونی چاہیے کہ دریاوں اور نہروں کی تعمیرومرمت کے لیے ہر سال مختص کیے جانے والے فنڈز ہر سال کیوں ضائع ہو جاتے ہیں۔
انجمن تاجران مظفرگڑھ کے سکریٹری جنرل سرفراز احمد نے بتایا کہ یہ افسوس کی بات ہے کہ ہماری حکومت سیلاب زدگان کی مدد کم لیکن باتیں زیادہ کر رہی ہے،حکومت آبی گذرگاہوں کو گہرا کرنے ، نئے آبی ذخائر تعمیر کرنے اور حفاظتی بندوں کو پکا کرنے کی بجائے ہر سال بند توڑنے اور مرنے والوں کی مالی امداد کرنے پرہی کیوں تلی رہتی ہے۔
مختار بھٹہ نامی ایک شخص نے بتایا کہ حالیہ سیلاب نے جنوبی پنجاب میں بہت تباہی مچائی ہے، لوگوں کے گھر بار ختم ہوگئے، مویشی بہہ گئے، کھیت کھلیان اجڑ گئے اور وہ بے چارے کھلے آسمان تلے پڑے امداد کا انتظار کر رہے ہیں۔
مظفر گڑھ کی ضلع کونسل کی سابق رکن اور ایک سماجی کارکن ام کلثوم سیال نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی بڑی تعداد بندوں پر، اور ٹیلوں پر موجود ہے وہ اپنے جانوروں کو چھوڑ کر حکومت کے کیمپوں میں آنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ انہیں کسی قسم کی امداد نہیں پہنچ رہی ہے۔
یاد رہے پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے بھی سوموار کے روز جنوبی پنجاب کے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کیا تھا ان کے دورے کے بعد ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے مظفرگڑھ کے ڈی سی او شوکت علی نے اعتراف کیا دور دراز کے متاثرہ علاقوں میں امداد نہ پہنچنے یا تاخیر سے پہنچنے کی شکایات درست بھی ہو سکتی ہیں، ان کے بقول یہ ایک بہت بڑی آفت ہے اور ہم اس سے نمٹنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے بقول صرف ضلع مظفرگڑھ میں سیلاب سے ڈھائی سے تین لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔
اگرچہ حکومتی لوگ اس سیلاب کو پاکستان اور پنجاب کی تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب بتاتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ آفت اچانک آن پڑی ہے لیکن محکمہ موسمیات پنجاب کے سربراہ محمد ریاض ان باتوں کی تصدیق نہیں کرتے ،ان کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے بھی دریائے چناب پر اس سے بھی بڑے سیلابی ریلے گذر چکے ہیں، ان کے بقول سیلاب کا باعث بننے والے ہر بارشی موسم کا چھتیس گھنٹے پہلے حتمی طور پر پتہ چل جاتا ہے اور بھارت سے پانی پاکستان میں پہنچنے میں بھی کافی وقت لگتا ہے، اگرچہ پندرہ ستمبرپاکستان میں مون سون ختم ہو جانے کی تاریخ رہی ہے لیکن محکمہ موسمیات کے حکام کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اب حالات بدل رہے ہیں، سیلاب کا باعث بننے والی بارشیں اکتوبر تک بھی جا سکتی ہیں۔