1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سیلابی نقصانات کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ

تنویر شہزاد، لاہور15 ستمبر 2014

پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں، پاکستانی پنجاب کے علاقوں جھنگ، ملتان اور مظفر گڑھ میں تباہی پھیلانے کے بعد بڑا سیلابی ریلا اب پنج ند ہیڈ ورکس کی طرف بڑھ رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1DCWF
تصویر: AFP/Getty Images/A. Ali

پاکستان میں سیلابی نقصانات کو کم کرنے کی آڑ میں دریاؤں اور نہروں کے حفاظتی بندوں کو توڑنے اور سیلابی نقصانات کا باعث بننے والے حکومتی فیصلوں کی عدالتی تحقیقات کی آوازیں بھی بلند ہونا شروع ہو گئی ہیں۔

ایک ایسے وقت میں جب پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا کہنا ہے کہ اٹھارہ ہزاری کے قریب دریائے چناب کے بند کو طاقتوروں کی دو شوگر ملوں کو بچانے کے لیے توڑے گئے ہیں، دوسری طرف مظفر گڑھ کے بعض شہریوں کی طرف سے بھی کہا جا رہا ہے کہ انتظامیہ نے ایک ٹیکسٹائل مل کو بچانے کے لیئے مظفر گڑھ کے قریب دوآبہ بند کو توڑنے میں تاخیر کی جس کی وجہ سے سیلابی تقصانات میں اضافہ ہوا۔

مظفرگڑھ سے تعلق رکھنے والے اکرم شیخ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انتظامیہ نے ایک طرف دوآبہ بند توڑنے میں مجرمانہ تاخیر کہ دوسری طرف جلد بازی میں غیر ضروری طور پر چک روھاڑی کا بند توڑ دیا گیا جس کا پانی ایک چکر کھا کر پھر آبادیوں کی طرف آ رہا ہے اور لوگوں کی زندگیاں بہت مشکل میں ہیں ان کو امداد بھی نہیں مل رہی ہے۔ ا ن کے مطابق سپریم کورٹ کو حالیہ سیلاب کے نقصانات پر سوموٹو نوٹس لیا چاہیے اور دو ہزار چودہ کے سیلاب کے حوالے سے بھی ایک عدالتی کمیشن بننا چاہیے۔

Pakistan Überschwemmung 13.09.2014
اٹھارہ ہزاری کے قریب دریائے چناب کے بند کو طاقتوروں کی دو شوگر ملوں کو بچانے کے لیے توڑے گئے ہیں: عمران خانتصویر: Reuters/Z. Bensemra

جھنگ سے تعلق رکھنے والے ایک سماجی کارکن ڈاکٹر عبدالجبار نے بتایا کہ اس بات کی بھی تحقیق ہونی چاہیے کہ دریاوں اور نہروں کی تعمیرومرمت کے لیے ہر سال مختص کیے جانے والے فنڈز ہر سال کیوں ضائع ہو جاتے ہیں۔

انجمن تاجران مظفرگڑھ کے سکریٹری جنرل سرفراز احمد نے بتایا کہ یہ افسوس کی بات ہے کہ ہماری حکومت سیلاب زدگان کی مدد کم لیکن باتیں زیادہ کر رہی ہے،حکومت آبی گذرگاہوں کو گہرا کرنے ، نئے آبی ذخائر تعمیر کرنے اور حفاظتی بندوں کو پکا کرنے کی بجائے ہر سال بند توڑنے اور مرنے والوں کی مالی امداد کرنے پرہی کیوں تلی رہتی ہے۔

مختار بھٹہ نامی ایک شخص نے بتایا کہ حالیہ سیلاب نے جنوبی پنجاب میں بہت تباہی مچائی ہے، لوگوں کے گھر بار ختم ہوگئے، مویشی بہہ گئے، کھیت کھلیان اجڑ گئے اور وہ بے چارے کھلے آسمان تلے پڑے امداد کا انتظار کر رہے ہیں۔

مظفر گڑھ کی ضلع کونسل کی سابق رکن اور ایک سماجی کارکن ام کلثوم سیال نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی بڑی تعداد بندوں پر، اور ٹیلوں پر موجود ہے وہ اپنے جانوروں کو چھوڑ کر حکومت کے کیمپوں میں آنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ انہیں کسی قسم کی امداد نہیں پہنچ رہی ہے۔

Pakistan Überschwemmung 12.09.2014
حکومتی اہلکاراس سیلاب کو پاکستان اور پنجاب کی تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب بتاتے ہیںتصویر: Reuters/Z. Bensemra

یاد رہے پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے بھی سوموار کے روز جنوبی پنجاب کے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کیا تھا ان کے دورے کے بعد ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے مظفرگڑھ کے ڈی سی او شوکت علی نے اعتراف کیا دور دراز کے متاثرہ علاقوں میں امداد نہ پہنچنے یا تاخیر سے پہنچنے کی شکایات درست بھی ہو سکتی ہیں، ان کے بقول یہ ایک بہت بڑی آفت ہے اور ہم اس سے نمٹنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے بقول صرف ضلع مظفرگڑھ میں سیلاب سے ڈھائی سے تین لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔

اگرچہ حکومتی لوگ اس سیلاب کو پاکستان اور پنجاب کی تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب بتاتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ آفت اچانک آن پڑی ہے لیکن محکمہ موسمیات پنجاب کے سربراہ محمد ریاض ان باتوں کی تصدیق نہیں کرتے ،ان کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے بھی دریائے چناب پر اس سے بھی بڑے سیلابی ریلے گذر چکے ہیں، ان کے بقول سیلاب کا باعث بننے والے ہر بارشی موسم کا چھتیس گھنٹے پہلے حتمی طور پر پتہ چل جاتا ہے اور بھارت سے پانی پاکستان میں پہنچنے میں بھی کافی وقت لگتا ہے، اگرچہ پندرہ ستمبرپاکستان میں مون سون ختم ہو جانے کی تاریخ رہی ہے لیکن محکمہ موسمیات کے حکام کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اب حالات بدل رہے ہیں، سیلاب کا باعث بننے والی بارشیں اکتوبر تک بھی جا سکتی ہیں۔