1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سیلاب میں پھنسے افراد کو بچانے کے لیے طلبہ کی ریسکیو کشتی

دانش بابر، پشاور18 ستمبر 2014

یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی پشاور کے ڈیپارٹمنٹ آف کمپیوٹر سسٹم انجینئرنگ کے تین طالب علموں نے ایک ایسی ریسکیو روبوٹ کشتی بنائی ہے جس کی مدد سے سیلاب میں ڈوبنے والے افراد کو آسانی کے ساتھ بچایا جا سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1DFGN
تصویر: DW/Danish Babar

پاکستان میں تقریباﹰ ہر سال طوفانی بارشوں کی وجہ سے آنے والے سیلابوں سے نہ صرف قیمتی املاک کا نقصان ہوتا ہے بلکہ ہزاروں انسانی جانیں بھی ضائع ہوجاتی ہیں۔ ان میں ایسے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں، جو دوسرے ڈوبتے ہوئے افراد کی مدد کرتے ہوئے خود بھی ہلاک ہوجاتے ہیں۔

یہ روبوٹ بوٹ یا ریسکیو کشتی بنانے والی تین رکنی ٹیم میں شامل ایک طالب علم بشیر خان نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک پروٹوٹائپ (ابتدائی نمونہ) روبوٹ کشتی ہے، جس کو ایک ریموٹ کے ذریعے کنٹرول کیا جاسکتا ہے اور اس کی مدد سے سیلاب کے پانی میں پھنسے ہوئے لوگوں کا بحفاظت باہر نکالا جاسکتا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں: ”لوگ سیلاب کے پانی میں ڈوب رہے ہوتے ہیں، کوئی غوطہ خور بھی ان کو نہیں بچا رہا ہوتا، کیونکہ اس سے اس کی زندگی بھی خطرے میں پڑسکتی ہے۔ تواس صورت میں اس کشتی کو ہم آسانی کے ساتھ کنارے پر بیٹھ کرریموٹ کے ذریعے کنٹرول کرسکتے ہیں، اور ان ڈوبتے ہوئے لوگوں کے پاس بھیج کر اور ان کو اس میں بٹھاکر، ان کی جانیں بچاسکتے ہیں۔“

بشیر خان کے مطابق اس کشتی کو ایک ریموٹ کے ذریعے کنٹرول کیا جاسکتا ہے
بشیر خان کے مطابق اس کشتی کو ایک ریموٹ کے ذریعے کنٹرول کیا جاسکتا ہےتصویر: DW/Danish Babar

بشیر خان کا کہنا ہے کہ اس تین فٹ لمبی اور دو فٹ چوڑی کشتی کوپانی میں چاروں اطراف چلایا اور گھمایا جاسکتاہے۔ اس کے نچلی سطح میں ایک وائرلیس ویڈیو کیمرہ بھی نصب ہے جس کی مدد سے دور بیٹھ کر پانی کے اندرونی حصے کا براہ راست معائنہ کیا جا سکتا ہے۔

ٹیم کے ایک اور رکن ایازخان کاکہنا ہے کہ بنیادی طور پر اس ریسکیو کشتی کا کام لوگوں کی قیمتی جانیں بچانا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم اس کشتی میں لگے ہوئے میٹل ڈیٹیکٹر(Metal Detector) کی مدد سے یہ پروٹوٹائپ کشتی پانی میں بیس انچ تک دھاتی اشیاء کی نشاندہی بھی کرسکتی ہے۔ ایاز کا کہنا ہے زیر آب کشتی کے نیچے بیس انچ کے میگنیٹک فیلڈ میں جو چیز بھی آجاتی ہے تو مایئکرو پروگرام کے تحت، ریموٹ پر ایک بزر سگنل آجاتا ہے، جس کے بعد وہاں پر ریسکیو کام سرانجام کرکے اشیاء کو نکالا جاسکتا ہے۔

یو ای ٹی (UET) کے کمپیوٹر سسٹم انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر لائق حسن کا کہنا ہے کہ اس قسم کی ایجادات کو کمرشل سطح پر متعارف کرانا چاہیے۔ وہ اس روبوٹ بوٹ کے حوالے سے مزید کہتے ہیں کہ اس کشتی کی مدد سے ریسکیو آپریشن میں بہت مدد مل سکتی ہے: ”بجائے اس کے کہ پولیس، فوج یا نیوی کے جوان اس جگہ پر جاکر یا پھر غوطہ خوروں سے مدد لیں، ان کا بھی اس میں جانی نقصان یا زخمی ہونے کا خدشہ ہوتا ہے، اس کشتی کے ذریعے اس قسم کے خدشات کو نکال کر ٹیکنالوجی کے مدد سے ایک محفوظ طریقے سے ریسکیو آپریشن کیا جاسکتاہے۔“

طوفانی بارشوں کی وجہ سے آنے والے سیلابوں سے نہ صرف قیمتی املاک کا نقصان ہوتا ہے بلکہ ہزاروں انسانی جانیں بھی ضائع ہوجاتی ہیں
طوفانی بارشوں کی وجہ سے آنے والے سیلابوں سے نہ صرف قیمتی املاک کا نقصان ہوتا ہے بلکہ ہزاروں انسانی جانیں بھی ضائع ہوجاتی ہیںتصویر: AFP/Getty Images/A. Arif

ڈاکٹر لائق حسن کے مطابق ان کے شعبے کے طلبہ کی اس کوشش کو قومی سطح پر سراہا گیا ہے اور منسٹری آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی طرف سے نیشنل آئی سی ٹی آر اینڈ ڈی (National ICT R&D) سے اس پراجیکٹ کے لیے فنڈنگ کے علاوہ طلبہ کی اس کاوش پر انہیں اسناد بھی دی گئی ہیں۔

بشیر خان کہتے ہیں کہ چونکہ یہ محض ڈگری کے حصول کے لیے ایک نمونہ تیار کیا گیا ہے، تاہم اگر اس کی تیاری موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے کی جائے تو اس کی مدد سے قیمتی انسانی جانوں کو بچایا جا سکتا ہے۔