1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’سیل ٹرانسپلانٹ‘ سے مفلوج شخص چلنے کے قابل

افسر اعوان23 اکتوبر 2014

ایک معزور شخص جس کا سینے سے نیچے کا جسم چاقو کے حملے کے بعد مفلوج ہو گیا تھا، ایک نئے طریقہء علاج کے بعد سہارے کی مدد سے چلنے کے قابل ہو گیا ہے۔ ’سیل ٹرانسپلانٹ‘ طریقہ علاج کے لیے اس کے ناک سے سیلز لیے گئے تھے۔

https://p.dw.com/p/1DaBO
تصویر: picture-alliance/dpa/BBC/Handout

طبی جریدے ’سیل ٹرانسپلانٹیشن‘ میں شائع ہونے والی اسٹڈی میں اس طریقہ علاج کو ایک اہم پیشرفت قرار دیا گیا ہے۔ اس طریقہ علاج میں ’اولفیکٹری اَینشیدِنگ‘ کہلانے والے سیلز کو مریض کی ریڑھ کی ہڈی میں ٹرانسپلانٹ کیا گیا۔ اس طرح ریڑھ کی ہڈی یا پھر حرام مغز میں متاثر ہونے والے اعصاب کے درمیان ’نرو برِج‘ یا عصبی پُل سا تشکیل پا جاتا ہے۔

اس ریسرچ کی سربراہی کرنے والے یونیورسٹی کالج لندن (UCL) کے نیورولوجی انسٹیٹیوٹ کے پروفیسر جیفری ریزمین کے مطابق، ’’ہم سمجھتے ہیں، یہ طریقہ کار ایک اہم پیشرفت ہے، جو مزید بہتر بنائے جانے کے بعد ایسے لوگوں کی حالت بہتر کرنے میں ایک تاریخی تبدیلی ثابت ہو گا، جو حرام مغز یا ریڑھ کی ہڈی میں انجری کے بعد مفلوج ہو جاتے ہیں۔‘‘

بلغاریہ سے تعلق رکھنے والے 38 سالہ ڈیرک فِیدِیکا 2010ء میں کمر میں لگنے والے چاقوؤں کے زخموں کے باعث مفلوج ہو گئے تھے۔ ان کے ڈاکٹروں کے مطابق 19 ماہ تک جاری رہنے والے علاج کے بعد ان کی ٹانگوں میں نہ صرف کسی حد تک سینسیشن یا محسوس کرنے کی صلاحیت لوٹ آئی ہے بلکہ ان کی ٹانگیں کسی حد تک حرکت کرنے کے قابل بھی ہو گئی ہیں۔

اس طریقہ علاج میں حرام مغز میں متاثر ہونے والے اعصاب کے درمیان ’نرو برِج‘ یا عصبی پُل سا تشکیل پا جاتا ہے
اس طریقہ علاج میں حرام مغز میں متاثر ہونے والے اعصاب کے درمیان ’نرو برِج‘ یا عصبی پُل سا تشکیل پا جاتا ہےتصویر: psdesign1/Fotolia.com

اس ریسرچ کے لیے فنڈنگ میں شریک برطانیہ میں قائم امدادی ادارے ’نکولز سپائنل انجری فاؤنڈیشن‘ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق فِیدِیکا توقعات سے زیادہ تیز رفتاری سے بہتری کی جانب گامزن ہیں اور اب نہ صرف ڈرائیونگ کے بلکہ زیادہ آزادانہ زندگی گزارنے کے قابل ہو گئے ہیں۔

UCL کے سپائنل انجری اسپیشلسٹ ریزمین نے پولینڈ کے وروسلاو یونیورسٹی ہسپتال کے سرجنز کے ساتھ مل کر فِیدِیکا کی ناک سے، سونگھنے کی صلاحیت رکھنے والے اعصاب ’اولفیکٹری بلب‘ لے کر اس کے حصے اولفیکٹری اَینشیدِنگ سیلز (OECs) اور اولفیکٹری نرو فِبروبلاسٹس (ONFs) سپائنل کورڈ کے متاثر ہونے والے حصوں میں ٹرانسپلانٹ کیے۔

ان طبی ماہرین نے متاثرہ سپائنل کالم کے سروں کے درمیان ایک عصبی پُل سا بنا دیا تاکہ دماغ اور جسم کے نچلے حصوں کے درمیان ٹوٹ جانے والے اعصابی رابطے کی بحالی ممکن ہو سکے۔

ریزمین کے مطابق سپائنل کورڈ میں اسی مریض کے اعصاب کے ٹرانسپلانٹ کے حوالے سے تجربات جانوروں میں تو کئی برسوں سے کیے جا رہے ہیں تاہم یہ پہلا موقع ہے کہ اس طریقہ کار کو OECs کے ساتھ ملا کر ٹرانسپلانٹ کیا گیا ہے۔ ریزمین کے بقول ONFs اور OECs نے باہم مل کر ناقص عصبی رابطے کو بحال تو کر دیا مگر ان دونوں کے درمیان تعامل کی تفصیلات ابھی معلوم نہیں ہیں۔

ریزمین اور ان کی ٹیم اب اس طریقہ علاج کو اگلے تین سے پانچ برس کے دوران مزید تین سے پانچ مریضوں پر آزمانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس طرح بتدریج اس طریقہ کار کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔