1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سپر کمپیوٹر، انسان ہونے کا دھوکے دینے میں کامیاب

افسر اعوان13 جون 2014

ایک روسی سپر کمپیوٹر نے آرٹیفیشل انٹیلیجنس یا مصنوعی ذہانت کے میدان میں ایک تاریخی سنگ میل عبور کر لیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1CHfR
تصویر: Forschungszentrum Jülich

خود کو ایک 13 سالہ لڑکا ظاہر کرنے والا یہ کمپیوٹر ذہانت کی ’ٹیورنگ ٹیسٹ‘ نامی ایک جانچ کے دوران ججز کو دھوکہ دینے اور یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہا کہ وہ کمپیوٹر نہیں بلکہ ایک انسان ہے۔ اس بات کی تصدیق برطانوی سائنسدانوں نے کی ہے۔

یہ سپر کمپیوٹر دنیا کا ایسا پہلا کمپیوٹر بن گیا ہے جس نے کی بورڈ کی مدد سے انسانوں کے ساتھ پانچ منٹ دورانیے پر مشتمل بات چیت کے دوران 30 فیصد وقت تک یہ تاثر قائم رکھنے میں کامیابی حاصل کی کہ وہ ایک حقیقی شخص ہے۔ کمپیوٹر اور انسانوں کے درمیان بات چیت پر مشتمل یہ تجربہ لندن کی رائل سوسائٹی میں کیا گیا۔

ذہانت جانچنے والا یہ ٹیسٹ سب سے پہلے 1950ء میں ایلن ٹیورنگ Alan Turing نے تیار کیا تھا۔ یہ ٹیسٹ انہوں نے یہ جانچنے کے لیے تیار کیا تھا کہ کیا کمپیوٹر سوچ سکتے ہیں یا نہیں۔ برطانیہ سے تعلق رکھنے والے ٹیورنگ دوسری عالمی جنگ کے دوران کوڈز میں بھیجی جانے والی خفیہ معلومات کے کوڈز توڑنے میں مہارت رکھتے تھے اور انہیں کمپیوٹر سائنس کے رہنماؤں میں شمار کیا جاتا ہے۔

ہفتہ سات جون کو ہونے والے مقابلے میں پانچ سپر کمپیوٹرز شریک ہوئے۔ سپر کمپیوٹرز دراصل بہت زیادہ تعداد میں پروسیسرز پر مشتمل ہوتے ہیں جو انتہائی تیز رفتاری سے بہت زیادہ ڈیٹا کو پراسیس کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس مقابلے میں لامحدود سوالات کی سیریز موجود تھی۔

ان سوالات کے جوابات کمپیوٹرز کے علاوہ انسان بھی دے رہے تھے اور ججوں کو یہ طے کرنا تھا کہ جواب دینے والوں میں سے کون سے انسان ہیں اور کون سے کمپیوٹرز۔

روسی کمپیوٹر پروگرام، جس نے ایک 13 سالہ لڑکے یوجین گوسٹمین Eugene Goostman کے نام سے اس مقابلے میں شمولیت کی، 33 فیصد وقت تک ججوں کو یہ یقین دلائے رکھنے میں کامیاب رہا کہ وہ دراصل ایک حقیقی انسان ہی ہے۔

یہ مقابلہ منعقد کرانے والے لندن کی رِیڈنگ یونیورسٹی کے پروفیسر کِیوِن واروِک Kevin Warwick کے مطابق، ’’آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے میدان میں ٹیورنگ ٹیسٹ سے زیادہ مشہور اور متنازعہ سنگ میل کوئی اور نہیں ہو سکتا، جب کمپیوٹر کافی حد تک ماہرین کو یقین دلا دیتا ہے کہ وہ مشین نہیں بلکہ ایک انسان ہے۔‘‘

ایلن ٹیورنگ نے دوسری عالمی جنگ کے دوران نازی جرمنی کا کوڈ ’انیگما‘ توڑنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا تھا
ایلن ٹیورنگ نے دوسری عالمی جنگ کے دوران نازی جرمنی کا کوڈ ’انیگما‘ توڑنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا تھاتصویر: National Portrait Gallery

ان کا کہنا تھا کہ چونکہ بعض ماہرین اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ ٹیورنگ ٹیسٹ پہلے ہی پاس کیا جا چکا ہے، اس لیے رائل سوسائٹی کے اس تجربے میں کچھ اضافہ کیا گیا تھا اور وہ یہ کہ اس ٹیسٹ میں بے ترتیب نوعیت کے سوالات بھی شامل کیے گئے۔ مزید یہ کہ اس کی تصدیق آزاد ذرائع سے کرائی گئی۔

واروِک کے مطابق، ’’ہم فخر کے ساتھ یہ اعلان کرتے ہیں کہ ایلن ٹیورنگ ٹیسٹ پہلی مرتبہ ہفتہ سات جون کو پاس کیا گیا ہے۔‘‘

یوجین بنانے والے روسی کمپیوٹر سائنسدان ولادیمیر ویسلوف کے مطابق یہ نتیجہ ’’زبردست کامیابی‘‘ ہے۔ امریکا میں مقیم ویسلوف کا خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے مزید کہنا تھا، ’’ہم نے ایک ایسا کردار تخلیق کرنے میں، جو قابل یقین شخصیت کا حامل ہو، کافی زیادہ وقت صَرف کیا ہے۔‘‘

ایلن ٹیورنگ نے دوسری عالمی جنگ کے دوران نازی جرمنی کی طرف سے خفیہ اطلاعات کی ترسیل کے لیے استعمال کیا جانے والا کوڈ ’انیگما‘ توڑنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا تھا۔ انہیں ایک ایسا جینیئس قرار دیا جاتا ہے، جس نے ماڈرن کمپیوٹنگ کی بنیاد رکھی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید