1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سپاہ قبیلے کا بارہ کروڑ روپے جرمانے کی ادائیگی سے انکار

فرید اللہ خان، پشاور27 مئی 2015

پاکستانی قبائلی علاقے خیبر ایجنسی کی تحصیل باڑہ کے عوام نے انتظامیہ کی جانب سے عائد کردہ جرمانہ ادا کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ سپاہ قبیلے کے ایک جرگے کے مطابق یہ جرمانہ منسوخ نہ کیے جانے کی صورت میں احتجاج کیا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/1FX8S
تصویر: DW/F. Khan

خیبر ایجنسی کی پولیٹیکل انتظامیہ نے باڑہ کے سپاہ نامی قبیلے پر بارہ کروڑ روپے جرمانہ عائد کیا ہے اور علاقے کی سیاسی انتظامیہ نے اس قبیلے کے عمائدین کو متنبہ بھی کیا ہے کہ جرمانے کی عدم ادائیگی کی صورت میں انہیں اپنے علاقے اور گھروں کو واپس نہیں جانے دیا جائے گا۔

اس جرمانے کی وجہ بتاتے ہوئے باڑہ کے رہنے والے سالم خان نے بتایا کہ کالعدم عسکریت پسند تحریک لشکر اسلام کے سربراہ منگل باغ کا تعلق اسی قبیلے سے ہے۔ پولیٹیکل انتظامیہ نے علاقے کے عمائدین کو ہدایت کی تھی کہ وہ لشکر اسلام اور اس کے حمایتی عناصر کی گرفتاری کے لیے انتظامیہ سے تعاون کریں۔ لیکن اگر تمام تر وسائل کے باوجود خود مقامی انتظامیہ یہ کام نہیں کر سکی تو عوام کے لیے ایسا کرنا کس طرح ممکن ہو سکتا ہے۔

قبائلی علاقوں میں اجتماعی ذمہ داری کا قانون نافذ ہے جس کے تحت علاقے کے عمائدین انتظامیہ کے ساتھ تعاون کے معاہدوں پر دستخط کرتے ہیں اور وہ علاقے میں امن و امان کے قیام میں مدد دینے کے پابند ہوتے ہیں۔ پولیٹیکل انتظامیہ کے پاس بھاری جرمانے عائد کرنے اور انہیں معاف کرنے کا اختیار بھی ہوتا ہے تاہم قبائلی علاقوں میں اتنے بڑے جرمانے کی آج سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔

ان حالات میں سپاہ قبیلے نے ایک جرگے کا انعقاد کیا جس میں انتظامیہ سے بات چیت کے لیے ایک 32 رکنی کمیٹی بنائی گئی۔ اس کمیٹی کا سربراہ شاہ فیصل آفریدی کو مقرر کیا گیا، جنہوں نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ‍’’قبائل نے اس جرمانے کو مسترد کر دیا ہے۔ پورا قبیلہ لشکر اسلام کے منگل باغ کے کسی بھی فیصلے میں شریک نہیں تھا۔ اس مسلح گروپ کی کارروائیاں دہشت گردی کے زمرے میں آتی ہیں اور دہشت گردی صرف کسی ایک قبیلے یا قبائلی علاقے کا مسئلہ نہیں پورے ملک اور پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔ اس کے لیے کسی فرد یا کسی ایک قبیلے کو ذمہ دار ٹھہرانا ناانصافی ہے۔

شاہ فیصل آفریدی کا مزید کہنا تھا کہ دہشت گرد جن نقصانات کی وجہ بنتے ہیں، وہ اجتماعی ذمہ داری کے زمرے میں نہیں آتے۔ انہوں نے کہا، ’’باڑہ میں حکومتی اداروں نے عام شہریوں کے ذاتی ملکیتی پلازوں اور دکانوں کو مسمار کرنا شروع کر دیا ہے۔ لوگوں کے ذاتی مکانات تک مسمار کر دیے گئے لیکن کسی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ کے دوران قبائل کا اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔ آج بھی لاکھوں لوگ بے گھر ہیں اور خیمہ بستیوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ حکومت ان کی واپسی اور بحالی کی بجائے ان پر انتظامیہ کے ذریعے بھاری جرمانے عائد کر رہی ہے، جو سراسر ناانصافی ہے۔‘‘

Treffen des Sipah-Stamms in Pakistan
سپاہ قبیلے کے اس جرگے کا انعقاد پشاور میں ہواتصویر: DW/F. Khan

اس جرگے کے عمائدین کا کہنا تھا کہ سپاہ قبیلے کے لوگوں نے اس وقت بھی انتظامہ کا ساتھ دیا جب انہیں قتل کی دھمکیاں مل رہی تھیں۔ اس کے باوجود حکومت نے جن مطلوب افراد کے نام دیے تھے، ان میں سے پندرہ مطلوب افراد کو اجتماعی ذمہ داری کے تحت انتظامیہ کے حوالے کر دیا گیا تھا۔

اس کے برعکس پولیٹیکل انتظامیہ کا کہنا ہے کہ باڑہ خیبر ایجنسی میں کالعدم لشکر اسلام نامی تنظیم کی وجہ سے بہت تباہی ہوئی ہے، جس کا ازالہ سپاہ قوم بارہ کروڑ روپے ادا کر کے کرے گی، بصورت دیگر ان عمائدین کو ان کے گھروں میں واپس جانے نہیں دیا جائے گا۔

باڑہ خیبر ایجنسی میں دہشت گردی کے واقعات چھ سال قبل شروع ہوئے تھے۔ اس دوران باڑہ کے لاکھوں باشندے نقل مکانی کر کے پشاور، نوشہرہ اور دیگر مقامات قائم خیمہ بستیوں میں منتقل ہو گئے یا پھر انہوں نے کرائے کے گھروں میں رہائش اختیار کر لی۔ گزشتہ برس اکتوبر میں فوج نے باڑہ میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا تھا۔ پہلے ’خیبر ون‘ اور اس کے بعد ’خیبر ٹو‘ کے نام سے یہ آپریشن آج بھی بعض علاقوں میں جاری ہیں۔

اس دوران مزید لوگوں نے نقل مکانی کی اور قبائلی عمائدین کے مطابق ایک لاکھ بیس ہزار تک خاندان ابھی بھی بےگھر ہیں جبکہ باڑہ کی پانچ ہزار سے زیادہ دکانیں اور کاروباری مراکز بھی بند پڑے ہیں۔ علاقائی انتظامیہ نے سڑک کی کشادگی کے نام پر قبائلیوں کی دو سو سے زیادہ دکانیں بھی مسمار کر دیں لیکن اس کے لیے کسی سے نہ تو اجازت لی گئی اور نہ ہی کوئی معاوضہ ادا کیا گیا۔

تحصیل باڑہ کے ہزار ہا باشندے آج بھی اپنے گھروں کو واپسی کے منتظر ہیں تاہم انتظامیہ کی جانب سے جرمانے کی ادائیگی کی شرط نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ اس سلسلے میں انتظامیہ کا موقف جاننے کے لیے ڈوئچے ویلے کی طرف سے فاٹا سیکریٹریٹ کے ترجمان کے ساتھ رابطے کی کوششیں کامیاب نہ ہوسکیں۔