1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سویڈن نے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کر لیا

Abid Hussain Qureshi30 اکتوبر 2014

یورپی ملک سویڈن نے باضابطہ طور پر فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کر لیا ہے۔ موجودہ وزیراعظم اسٹیفان لُوویان نے تقریباً ایک ماہ قبل فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان پارلیمنٹ میں کیا تھا۔

https://p.dw.com/p/1DeSC
سویڈش وزیر خارجہ وال اسٹروم
سویڈش وزیر خارجہ وال اسٹرومتصویر: Reuters/TT News Agency/Annika AF Klercker

فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا اعلان اسٹاک ہولم میں وزیر خارجہ مارگوٹ وال اسٹروم کی جانب سے کیا گیا۔ سویڈش وزیر خارجہ نے کابینہ کی میٹنگ کے بعد فلسطین کو تسلیم کرنے کا بیان جاری کیا۔ مارگوٹ وال اسٹروم نے کہا کہ یہ فیصلہ انٹرنیشنل قوانین کے قواعد کی حدود کے مطابق کیا گیا ہے۔ انٹرنیشنل لا کے حوالے سے اُن کا کہنا تھا کہ وہاں علاقہ ہے، لوگ ہیں اور ایک حکومت موجود ہے اور اِس ریاست کو صرف اِس لیے تسلیم نہ کیا جائے کہ وہاں قابض قوت موجود ہے، یہ سراسر بین الاقوامی قوانین کے منافی ہے۔ وال اسٹروم نے واضح کیا کہ جارحیت کے ثمرات نہیں ہوتے۔ سویڈن نے فلسطین کے لیے اپنی امداد میں اضافہ کر دیا ہے۔ اگلے پانچ برسوں کے لیے پہلے سے مقررہ امداد میں سڑسٹھ ملین ڈالر کا اضافہ کیا گیا ہے۔

مختلف یورپی حلقے سویڈن کے اِس اعلان کو متنازعہ خیال دے رہے ہیں۔ مارگوٹ وال اسٹروم نے اِس اعلان میں یہ بھی کہا کہ یہ ایک اہم قدم ہے جو فلسطین کے حقِ خود ارادیت کی تصدیق کرتا ہے۔ دوسری جانب فلسطینی اتھارٹی کے چیئرمین محمود عباس نے سویڈش حکومت کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ عباس کے ترجمان نبیل ابُو روضینہ کے مطابق عباس نے اسٹاک ہولم حکومت کے فیصلے کو دلیرانہ اور تاریخی قرار دیا ہے۔ ابُو روضینہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ بقیہ یورپی اقوام بھی سویڈن کی مثال پر عمل کرتے ہوئے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے بارے سوچیں تاکہ امن کے عمل کو آگے بڑھایا جا سکے۔

UN Vollversammlung 26.09.2014 - Mahmud Abbas
فلسطینی اتھارٹی کے چیرمین محمود عباس نے سویڈش حکومت کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہےتصویر: Reuters/Mike Segar

رپورٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے سویڈش وزیر خارجہ وال اسٹروم نے یہ بھی کہا حکومت امن بات چیت کی حامی ہیں اور اُن کی حکومت کا فیصلہ خاص طور پر نوجوان نسل کے لیے اہم ہے کیونکہ اُن پر یہ واضح کرنا ہے کہ ایک اور دنیا کی تشکیل ممکن ہے۔ وال اسٹروم نے یہ بھی کہا کہ انہیں یقین ہے کہ اسٹاک ہولم حکومت کے فیصلے سے متاثر ہو کر دوسری اقوام بھی ایسا فیصلہ کرنے کی ہمت کریں گی۔ سویڈش وزیر خارجہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ جس طرح وہ اسرائیل سے مطالبہ کرتی ہیں ویسے ہی فلسطینی قیادت سے بھی کہتی ہیں کہ وہ امن بات چیت کے عمل کو آگے بڑھائے۔ دوسری جانب اسرائیل کے وزیر خارجہ لیبرمین نے سویڈش حکومت کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اِس سے فائدہ صرف انتہا پسندی کو ہو گا اور یہ تنازعے کی حل کی کوشش کے لیے باعث نقصان ہو گا۔

خاص طور پر مشرقی یورپ سے تعلق رکھنے والے سات یورپی یونین کے رکن ممالک پہلے ہی فلسطینی ریاست کو تسلیم کر چکے ہیں، ان میں بلغاریہ، قبرص، چیک جمہوریہ، ہنگری، مالٹا، پولینڈ اور رومانیہ شامل ہیں۔ یورپی یونین کے غیر رکن مغربی ملک آئس لینڈ نے بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کر رکھا ہے۔ نیوز ایجنسی AFP کے مطابق 112 ملکوں نے فلسطین کو بحیثیت ریاست تسلیم کر رکھا ہے جبکہ فلسطینی لیڈران اس تعداد کو 134 بتاتے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید