1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سمندروں میں دھاتی آلودگی: اولین الیکٹرانک اطلس زیر تکمیل

مقبول ملک14 اپریل 2014

کرہء ارض پر سمندروں میں مختلف آئسوٹوپس اور دھاتوں کی موجودگی کا پتہ چلانے کے لیے شروع کیے گئے ایک بین الاقوامی ’میپنگ پروجیکٹ‘ کے ماہرین نے اپنی تحقیق کے پہلے تین سال کے دوران جمع کی گئی ابتدائی معلومات جاری کر دی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1BhYl
مسلسل شدید تر ہوتا جا رہا سمندری آلودگی کا مسئلہتصویر: picture-alliance/dpa

ان اعداد و شمار کے مطابق سمندری پانیوں میں لوہے، کیڈمیئم، سیسے اور کئی دوسری دھاتوں کی موجودگی اس طرح ثابت ہو گئی ہے کہ یہ دھاتیں پانی میں گھلی ہوئی حالت میں پائی جاتی ہیں۔ منصوبے کے دوران ماہرین نے اب تک صرف بحر منجمد شمالی، بحر اوقیانوس اور بحر ہند کے پانیوں کے کئی مختلف مقامات سے نمونے لے کر ان کے تجزیے کیے۔ بحرالکاہل کے پانیوں میں پائی جانے والی ایسی دھاتی اور کیمیائی آلودگی کے بارے میں اعداد و شمار بعد میں جاری کیے جائیں گے۔

اس بحری تحقیقی منصوبے پر کام شمالی جرمنی کی شہری ریاست بریمن کے بندرگاہی شہر بریمرہافن میں قائم آلفرَیڈ وَیگنر انسٹیٹیوٹ برائے قطبی اور سمندری تحقیق کی طرف سے بھی کیا جا رہا ہے۔ اس ریسرچ پروجیکٹ کی اہم بات یہ ہے کہ سائنسدان یہ پتہ چلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ سمندری پانیوں میں ان دھاتوں کی آمیزش کس طرح عمل میں آتی ہے اور وہ سمندری پانی میں کن عوامل کے باعث پھیلتی ہیں۔

Bildergalerie Antarktis Lebensformen
کیمیائی اور دھاتی آلودگی سمندری حیات کی بقاء کے لیے خطرہ ہےتصویر: Dirk Schories

بریمرہافن کے آلفرَیڈ وَیگنر انسٹیٹیوٹ (AWI) کے مطابق اگر ان عوامل کا تعین کر لیا گیا تو یہ سمجھنا بہت آسان ہو جائے گا کہ ماحولیاتی تبدیلی اور آلودگی کس طرح عمل میں آتی ہیں اور سمندری حیات پر ان کے منفی اثرات کو کیسے روکا جا سکتا ہے۔

قطبی اور بحری تحقیق کے اس جرمن ادارے کے مطابق اس ریسرچ کے دوران اب تک مختلف سمندری علاقوں میں قائم 800 کے قریب چھوٹے چھوٹے اسٹیشنوں کی مدد سے حاصل کردہ پانی کے کُل 25 ہزار سے زائد نمونوں کا تجزیہ کیا جا چکا ہے۔

ماہرین نے یہ جائزہ لینے کی کوشش کی کہ سمندری پانی میں کس کس طرح کے مادے پائے جاتے ہیں۔ ایسے ہر آبی نمونے کا اس میں 200 سے زائد مادوں کی موجودگی یا عدم موجودگی کے تعین کے لیے کیمیائی تجزیہ کیا گیا۔

بریمر ہافن میں AWI کی طرف سے جاری کردہ معلومات کے مطابق اس منصوبے کو Geotraces کا نام دیا گیا ہے۔ اس میں 10 ملکوں کے جو 30 سے زائد سائنسی تحقیقی ادارے شامل ہیں، بریمن کا AWI ان میں سے صرف ایک ادارہ ہے۔ اس منصوبے کے ابتدائی تین سالوں میں جو ڈیٹا جمع کیا گیا، اس کے لیے مختلف بحری جہازوں پر مشتمل کُل 15 ٹیموں کو مختلف سمندری علاقوں کی طرف بھیجا گیا۔

AWI کے مطابق اس منصوبے کے تحت جو معلومات اب تک جمع کی گئی ہیں، انہیں ایک آن لائن الیکٹرانک اطلس کی صورت میں مرتب کیا جا رہا ہے۔ اس اطلس میں اس بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات کو یکجا کیا جا رہا ہے کہ سمندری پانیوں میں کون کون سے دھاتیں، کس تناسب سے کہاں کہاں پائی جاتی ہیں، ان کی موجودگی کے اسباب کیا ہیں اور وہ پانی میں کس طرح پھیلتی ہیں۔

IFM Geomar
اس تحقیق کے دوران سمندروں سے مختلف سطح کی گہرائی سے پانی کے ہزاروں نمونے جمع کیے گئےتصویر: IFM Geomar

اس طرح اس اطلس کے استعمال کنندگان ایک کنٹرول سسٹم کو استعمال کرتے ہوئے یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ کسی سمندر کا درجہء حرارت کتنا ہے، وہاں پانی میں نمکیات کی موجودگی کی شرح کیا ہے، پانی کتنا گدلا ہے اور اس میں آکسیجن کی موجودگی کا تناسب کیا ہے۔

ابتدائی نتائج کے مطابق بحر اوقیانوس میں 500 سے لے کر 2000 میٹر کی گہرائی تک پانی میں سیسے کی موجودگی کا تناسب کافی زیادہ ہے، جو شاید اُس دور میں مختلف ملکوں میں کاروں کے استعمال کا نتیجہ ہے، جب شمالی امریکا اور یورپ میں ابھی گاڑیوں میں سیسے سے پاک یا unleaded پٹرول کا استعمال شروع نہیں ہوا تھا۔

اس کے برعکس سمندری پانیوں کی سطح پر یا 500 میٹر تک کی گہرائی میں سیسے کی موجودگی کی شرح کافی کم ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کمی سیسہ ملے یا leaded پٹرول کے استعمال پر پابندی کا نتیجہ ہے۔

اس ریسرچ پروجیکٹ کے دوران اگلی ایک دہائی میں دنیا کے تمام بڑے سمندروں کی تہہ تک کا مطالعہ کیا جائے گا۔ اس طرح Geotraces نامی منصوبہ اس بارے میں وضاحت کر سکے گا کہ ماحولیاتی تبدیلیاں اور انسانی زندگی کے اثرات سمندری زندگی کے لیے اہم عوامل اور آلودگی کا باعث بننے والوں مادوں کے پھیلاؤ پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید