1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’سمندر کراچی کو نگل سکتا ہے‘، ماہرین

امجد علی10 فروری 2015

اگلے پانچ عشروں کے اندر اندر پاکستان کا سب سے بڑا بندرگاہی شہر کراچی موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں بحیرہٴ عرب میں ڈوب کر صفحہٴ ہستی سے غائب بھی ہو سکتا ہے۔ یہ بات جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی ایک رپورٹ میں کہی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/1EZ5S
گرمیوں کے موسم میں کراچی کے کئی باسی بحیرہٴ عرب میں غوطے لگا کر گرمی سے چھٹکارا پانے کی کوشش کرتے ہیں
گرمیوں کے موسم میں کراچی کے کئی باسی بحیرہٴ عرب میں غوطے لگا کر گرمی سے چھٹکارا پانے کی کوشش کرتے ہیںتصویر: Asif Hassan/AFP/Getty Images

ڈی پی اے نے اسلام آباد سے اپنے ایک جائزے میں جریدے ایکسپریس ٹریبیون میں چھپنے والی رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ سمندر میں پانی کی مسلسل بلند ہوتی ہوئی سطح کے باعث یہ خطرہ موجود ہے کہ سن 2060ء تک دو کروڑ سے زیادہ کی آبادی والا کراچی ہی نہیں بلکہ صوبہٴ سندھ کے کچھ دیگر شہر بھی زیرِ آب آ جائیں گے۔ بتایا گیا ہے کہ ملک کے سمندر سے متعلقہ علوم کے چوٹی کے ماہرین نے ایک روز قبل سینیٹ کی کمیٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کو ان خطرات سے آگاہ کیا اور آنے والے عشروں میں ملک کے شمال اور جنوب میں درجہٴ حرارت میں تین تا پانچ ڈگری اضافے کے امکانات کے پیشِ نظر فوری طور پر اور جنگی بنیادوں پر حفاظتی اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔

ان ماہرین میں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اوشیانوگرافی کے سربراہ آصف انعام بھی شامل ہیں، جنہوں نے بتایا ہے کہ ’کراچی کے علاقے ملیر کے کئی حصے ابھی سے زیرِ آب آ چکے ہیں جبکہ سندھ میں ٹھٹہ اور بدین کے اضلاع بھی سن 2050ء تک غرق ہو چکے ہوں گے‘۔

ماہرین کراچی کے درجہٴ حرارت میں آنے والے عشروں میں بڑے پیمانے پر اضافے اور سمندری پانی کی سطح بلند ہونے سے اس شہر کے زیرِ آب آ جانے سے خبردار کر رہے ہیں
ماہرین کراچی کے درجہٴ حرارت میں آنے والے عشروں میں بڑے پیمانے پر اضافے اور سمندری پانی کی سطح بلند ہونے سے اس شہر کے زیرِ آب آ جانے سے خبردار کر رہے ہیںتصویر: Asif Hassan/AFP/Getty Images

جریدے ایکسپریس ٹریبیون نے آصف انعام کا حوالہ دیتے ہوئے مزید لکھا ہے کہ ’گزشتہ پینتیس برسوں کے دوران سمندری پانی دو کلومیٹر لمبی ساحلی پٹی کے ساتھ ساتھ دو لاکھ ایکڑ زمین بھی نگل چکا ہے‘۔

ماحولیات کے ایک ماہر قمر زمان چوہدری کا کہنا ہے کہ پاکستان کی حیثیت حد سے زیادہ صنعتی سرگرمی کے حامل دو بڑے ممالک چین اور بھارت کے درمیان ایک سینڈ وِچ کی سی ہے اور یہ کہ زمینی درجہٴ حرارت میں ہونے والے اضافے کے دوران پاکستان کو ایک جانب شمال میں ہمالیہ کے تیزی سے پگھلتے ہوئے گلیشئرز کے مسئلے کا سامنا ہے تو دوسری جانب جنوب میں سمندری پانی کی مسلسل بلند ہوئی سطح سے خطرہ ہے۔

آصف انعام نے مزید کہا کہ اگر حکومتِ پاکستان نے فوری طور پر اقدامات نہ کیے اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر کوئی مشترکہ حکمتِ عملی نہ اپنائی تو آنے والے برسوں میں پاکستان کے لیے حالات خراب سے خراب تر ہوتے چلے جائیں گے۔

واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام نے 1989ء سے پاکستان کو اُن ممالک کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے، جو سمندروں میں پانی کی بلند ہوئی سطح کے باعث خطرات سے دوچار ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں