سلطنت برطانیہ تقسیم ہونے سے بچ گئی
19 ستمبر 2014گزشتہ رات گئے تک اسکاٹ لینڈ میں سنسنی پھیلی ہوئی تھی اور فضا نہایت جذباتی نظر آ رہی تھی ، ہر طرف ایک سوال کے جواب کا انتظار تھا، کیا اسکاٹ لینڈ ایک آزاد ریاست بننا چاہتا ہے یا یہ تاج برطانیہ کا حصہ ہی رہے گا؟ آخر کار سیاسی استدلال جذبہِ قومیت پر حاوی آ گیا اور جیت اسی کی ہوئی۔ کل ہونے والے ریفرنڈم کے نتائج میں اسکاٹ لینڈ کی آزادی کی مخالفت اور اس کے برطانیہ کے ساتھ رہنے کے حق میں اپنی رائے دینے والے باشندوں کی شرح اُس سے کہیں زیادہ نکلی جتنی کہ ریفرنڈم سے قبل رائے عامہ کے جائزے بتا رہے تھے۔ ریفرنڈم کے نتائج کے تحت سامنے آنے والے فیصلے پر اسکاٹ لینڈ کو مبارکباد دی جانی چاہیے کیونکہ اگر یہ نتائج اسکاٹ لینڈ کی آزادی کے حق میں سامنے آتے تو یہ نہ صرف اُس پر بلکہ تمام یورپی ہمسایہ ممالک پر نہایت گہرے اثرات مرتب کرتے۔ آزاد ہونے کی صورت میں اسکاٹ لینڈ نہ صرف برطانیہ کی پشت پناہی اور تحفظ بلکہ یورپی یونین کی یکجہتی سے محروم ہوتے ہوئے تنہا کھڑا رہ جاتا۔ دوسری جانب برطانیہ کو اسکاٹ لینڈ کی آزادی کی صورت میں یورپ اور دنیا بھر میں اپنے کردار کی دوبارہ سے وضاحت کرنا پڑتی اور ممکنہ طور پر بطور ایک ریاست یہ ٹوٹ جاتا۔ یورپ گزشتہ صدیوں کی طرح دوبارہ سے چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس کے برعکس موجودہ یورپ کو مزید اشتراک عمل اور انضمام کی ضرورت ہے۔
اسکاٹ لینڈ کے باشندے برطانوی باشندوں سے مختلف ہیں۔ اُن کا یورپی یونین کی طرف زیادہ جھکاؤ ہے، وہ یورپی اتحاد کے ساتھ زیادہ دوستانہ تعلق رکھنا چاہتے ہیں۔ اگر ایک آدھ سال میں اسکاٹ لینڈ کو برطانیہ کا حصہ ہونے کے ناطے یورپی یونین سے خارج ہونا پڑتا تو یہ تاریخ کا ایک المیہ ثابت ہوتا کیونکہ اس بارے میں ایک ریفرنڈم بھی جلد متوقع ہے۔ اس ضمن میں بھی صرف یہ امید کی جانی چاہیے کہ اسکاٹ لینڈ کی آزادی کے بارے میں ہونے والے ریفرنڈم میں اسکاٹش باشندوں نے جس سیاسی سوجھ بوجھ اور تدبر کا مظاہرہ کیا اور سیاسی استدلال کی جیت ہوئی ایسا ہی یورپی یونین میں رہنے یا نہ رہنے کے بارے میں ہونے والے ریفرنڈم میں بھی دیکھنے میں آئے گا اور برطانیہ بشمول اسکاٹ لینڈ یورپی یونین میں شامل رہے گا۔
برطانیہ میں آئندہ موسم بہار میں ہونے والے مجوزہ عام انتخابات نہایت سنسنی خیز ہوں گے کیونکہ اس کا ایک مرکزی پہلو بھی یہ سوال ہوگا کہ برطانیہ یورپی یونین کے حق میں ہاں یا نا کہتا ہے۔ اُن انتخابات میں بھی برطانیہ کے شمالی حصے یعنی اسکاٹ لینڈ کے حالیہ ریفرنڈم کے نتائج بھی اثر انداز ہوں گے۔ اگر اسکاٹ لینڈ کے اکثریتی عوام آزادی کے حق میں فیصلہ دے دیتے تو برطانیہ کے قدامت پسند وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کو فوری طور سے عہدے سے مستعفی ہونا پڑتا۔ موجودہ صورتحال میں انہیں ایک بار پھر موقع مل گیا ہے۔ مئی 2015 ء کے انتخابات میں یورپ مخالف مضبوط تحریکوں سے نمٹنے کا۔