1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب کے سخت گیر جج

Kersten Knipp / امجد علی30 اکتوبر 2014

رواں سال کے آغاز سے سعودی عرب میں ساٹھ افراد کی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد ہو چکا ہے۔ خود کو سنّی اسلام کا محافظ سمجھنے والے اس ملک میں مذہب سے متعلقہ جرائم پر بھی موت کی سزائیں دی جا سکتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1DeYv
سعودی دارالحکومت ریاض میں مذہبی پولیس کا دفتر، جہاں موت کی سزاؤں پر عملدرآمد کیا جاتا ہے

سعودی شہری رائف بدوی ایک بلاگر ہیں۔ انہوں نے اپنی وَیب سائٹ ’سعودی لبرلز‘ پر سعودی عرب کے سرکردہ علماء کے ساتھ ساتھ ملک کی روزمرہ زندگی میں اسلام کے کردار کو بھی ہدفِ تنقید بنایا تھا۔ اُن کے خلاف مقدمہ قائم ہو گیا اور سعودی ججوں نے اُن پر نہ صرف علماء کا مذاق اڑانے کا الزام عائد کیا بلکہ اُنہیں ’مرتد‘ بھی قرار دے ڈالا، جس کے لیے سعودی عرب میں موت کی سزا دی جاتی ہے۔ جولائی 2013ء میں اس کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا اور بدوی کو چھ سو کوڑوں اور سات سال کی سزائے قید کا حکم سنا دیا گیا۔

بلاگر اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم کارکن رائف بدوی
بلاگر اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم کارکن رائف بدویتصویر: privat

کچھ حلقوں کے نزدیک دی جانے والی سزا بہت سخت تھی ، دیگر کا موقف یہ تھا کہ سزا اور بھی سخت ہونی چاہیے تھی۔ بدوی نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کر دی۔ اس سال مئی میں جج نے نیا فیصلہ سناتے ہوئے بدوی کو ایک ہزار کوڑوں اور دَس سال کی سزائے قید کے ساتھ ساتھ ایک لاکھ پچانوے ہزار یورو کے برابر جرمانے کی سزا بھی سنا دی۔

یہ اپنی نوعیت کا واحد واقعہ نہیں ہے۔ سعودی عرب میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں اور مذہبی قیادت کے ناقدین کو عموماً سنگین سزاؤں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس سال جولائی میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم ایک کارکن ولید ابوالخیر کو پندرہ سال کی سزائے قید کا حکم سنایا گیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق اُسے دیگر جرائم کے ساتھ ساتھ ’حکمران کی نافرمانی‘ اور ’بادشاہ کے اقتدار کو چیلنج کرنے‘ کے لیے بھی قصور وار قرار دیا گیا تھا۔ ولید ابوالخیر پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں اور اُن کے مؤکلین میں رائف بدوی بھی شامل ہے۔

سعودی عرب میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر اس سال فروری سے جو نئے قوانین نافذ ہوئے ہیں، اُن کے تحت جج ’امنِ عامہ میں خلل ڈالنے‘، ’عوام کی سلامتی اور ریاست کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرنے‘ اور ’ملک کی ساکھ کو خراب کرنے‘ کے الزامات کے تحت بھی لوگوں کے خلاف فیصلے سنانے لگے ہیں۔

خود کو سنّی اسلام کا محافظ سمجھنے والے سعودی عرب میں ’مذہبی جرائم‘ کے لیے بھی موت کی سزائیں سنائی جا رہی ہیں
خود کو سنّی اسلام کا محافظ سمجھنے والے سعودی عرب میں ’مذہبی جرائم‘ کے لیے بھی موت کی سزائیں سنائی جا رہی ہیںتصویر: Reuters/Muhammad Hamed

خاص طور پر گزشتہ دو برسوں کے دوران متعدد سعودی کارکنوں اور بلاگرز کو قید کی سخت سزائیں سنائی گئی ہیں۔ اس طرح ملک میں پریس کی آزادی کو بھی بڑے پیمانوں پر قدغنوں کا سامنا ہے۔ تنظیم ’رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز‘ کی پریس کی آزادی کے حوالے سے مرتب کردہ درجہ بندی میں 184 ممالک میں سے سعودی عرب 164 ویں نمبر پر ہے۔

سعودی عرب موت کی سزاؤں کے اعتبار سے بھی سرِفہرست ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق 2013ء میں اس ملک میں موت کی 79 سزاؤں پر عمل درآمد کیا گیا۔ 2014ء میں اب تک ساٹھ انسانوں کی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد ہو چکا ہے۔

موت کی سزائیں عموماً قاتلوں اور منشیات کے اسمگلروں کو دی جاتی ہیں تاہم یہ سزا ’مذہبی جرائم‘ کے لیے بھی سنائی جا سکتی ہے مثلاً ابھی وسط اکتوبر میں شیعہ عالم نمر باقر النمر کو سزائے موت سنا دی گئی۔ اُن پر مختلف مسالک کے مابین تشدد کے لیے اُکسانے اور احتجاجی مظاہرے منظم کرنے کے ساتھ ساتھ بادشاہ کے خلاف نافرمانی کا طرزِ عمل اختیار کرنے کے بھی الزامات عائد کیے گئے۔

جرمن یونیورسٹی میونسٹر میں اسلامی علوم کے ماہر اور عرب بادشاہتوں پر خاص طور پر گہری نظر رکھنے والے بَینو پروئیشافٹ کے مطابق یہ عدالتی فیصلہ ایک خاص رجحان کی نشاندہی کرتا ہے:’’اس سے پتہ چلتا ہے کہ سعودی حکومت ملک میں کسی بھی طرح کی تبدیلی یا انقلابی رجحانات کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔‘‘